نیا پُل ۔۔۔ اعجاز راہی
نیا پُل
اعجاز راہی
تنگ گلیوں اور غلیظ کمروں میں گھٹن بڑھنے لگی اور حبس سے دم گھٹنے لگا تو لوگوں نے کپڑے اتارنا شروع کر دئیے۔ پہلے اوورکوٹ اترا، پھر کوٹ، سوئیٹر اور جرسی کی باری آئی اور آہستہ آہستہ جانگئیے نے پتلون کی جگہ لے لی۔ تب سارے شہرمیں میں اکیلا رہ گیا۔ شہر والے کپڑے اتاررہے تھے اورمیں کپڑے پہن رہا تھا۔ جس رفتار سے وہ کپڑے اتاررہے تھے، میرے بدن پرکپڑوں کے انبار اسی رفتار سے بڑھ رہے تھے۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میں ان کپڑوں کے ڈھیر میں بھی ننگاہوں۔ پہلے میں ننگا ہوکر بھی ننگا نہیں کہلاسکتا۔ کہ میں لاؤکوایہ کی عذاب زدہ نسل سے ہوں۔
میں جب سوچتا ہوں لوگ کتنے عجیب ہیں، تو مجھے وہ وقت یاد آجاتا ہے جب میں نے کپڑوں کے تنگ حصار سے گھبرا کر اسے توڑ دیا تھا اور روح کا ازلی و ابدی ننگا جسم لیے بازاروں میں گھومنے لگاتھا تو لوگوں نے یکایک اپنے خاکی جسموں کے کرب کے گرد مخملی اور سوتی سراب کی دیواریں چن لی تھیں۔ اتنی گہری دیواریں کہ میں ان میں جھانکنا بھی چاہتا تو وہ نظر نہیں آسکتے تھے۔
کتنے عجیب ہیں یہ لوگ!
میں نے بھی تو اپنے جسم کے گرد کپڑوں کے کرب کی دیواریں چن لی ہیں۔ اونچی اونچی تنگ دیواریں۔ جیسے یہ دیواریں کسی گہرے کنوئیں کی دیواریں ہیں جس میں مجھے ایلپس کے مقدس پہاڑ سے آگ چرانے کے جرم میں الٹا لٹکادیا گیا ہے اور میں روح کا ازلی و ابدی ننگا پن کپڑوں میں چھپائے آج بھی ٹوٹے ہوئے پل کی دیواروں کو یاد کرتا ہوں۔ جن کا اب نشان بھی نہیں۔ بوڑھے پل کی گود سے نیا پل جنم لے چکاہے۔ اب راستے میں کوئی پل صراط نہیں۔ نیا پل ہے، جس پر سے اب میں روزانہ کئی بارگزرتا ہوں۔
مٹی کا ٹوٹا ہوا پل۔ میں اور امجد کئی راتیں ساتھ گزارچکے ہیں۔ رات جب دن کے ننگا پن کو چھپانے کے لیے اپنے پرپھیلا دیتی ہے تو مجھے اس کی بھیانک خیزیوں سے ڈر لگنے لگتا ہے۔ لیکن رات تومامتا سے بھرے گداز بازوؤں کی طرح ہمیشہ مجھے اپنے دامن میں سمیٹ لیتی اور میں امجد کا ہاتھ تھامے ہولے ہولے پل کی طرف چل دیتا۔ پل کی طرف جسے بوڑھا پل کہہ کراس پرسے بھاری ٹریفک کو روک دیا گیا ہے۔ بوڑھا پل جس کے سینے سے سینکڑوں ہزاروں، لاکھوں بھاری پہئیے گزرے تھے۔ بوڑھے پل پر سے بھاری ٹریفک کو روک دیا گیا ۔ رات ہولے ہولے گہری ہوتی جاتی۔ ستارے چمک چمک کر بجھنے لگتے تو میں امجد سے کہتا ۔
’’میں چلوں؟‘‘
’’نہیں۔ کچھ دیر اور ٹھہرو۔ جانا تو ہے ہی‘‘۔
’’بہت دیر ہو گئی‘‘۔
’’دیر کب نہیں ہوئی‘‘۔
تو میں ازلی بے بسی سے امجد کی طرف دیکھتا۔ جو دور لئی کے زخموں سے رستی ہوئی پیپ کو گھورتا رہتا۔ رات کی اندھی گہرائیوں میں لئی کے زخم اورزیادہ گہرے ہوجاتے۔ جب اس کادرد جاگ اٹھتا تورات تیزتیز قدم اٹھاتی آگے بڑھنے لگتی۔ لیکن میں امجد اور بوڑھا پل ایک دوسرے کو چھوڑنے پر تیار نہ ہوتے۔ تینوں جانتے تھے تنہائی کے زخم کتنے گہرے ہوتے ہیں۔
میں پل کی ریلنگ سے اتر کر پل کے چہرے پر پڑی جھریوں کو دیکھتا تومجھے یوں لگتا جیسے پل دن کی روشنی کی نسبت اندھیروں میں کچھ زیادہ ہی بوڑھاہوگیا ہو۔
’’ضرور جاؤ گے؟‘‘
امجد ہمیشہ کی مانند پوچھتا۔
’’ہاں اٹھ جانے دو۔ بہت دیر ہوگئی ہے‘‘۔
’’کیا کروگے جاکر۔ دروازہ کھل جائے گا‘‘۔
’’دروازہ۔۔‘‘
میں بے بس ہو جاتا۔
’’بیٹھ جاؤ۔ بوڑھے پل کی یہ ریلنگ تمہارے اونچے مکان کی دہلیز سے بہتر ہے‘‘۔
میں واپس ریلنگ پر بیٹھ جاتا۔ دکھوں کے میلے میں ایک نئے دکھ کا اضافہ ہوجاتا۔ اور جب نئے دکھ کاوجود ختم ہوجاتا، تو میں سوچنے لگتا، گھر جا کر کیا کروں گا۔ دروازہ کون کھولے گا۔ دو بج چکے ہیں۔ تین گھنٹے بعد صبح ہوجائے گی۔ اور پھررات ختم ہوجائے گی۔ لیکن میں سوچتا رات کب ختم ہوتی ہے۔ رات کے زہریلے سائے جلتی ہلتی دھوپ میں اور بھی لمبے ہوجاتے ہیں۔
’’میں افسانہ لکھنا چاہتاہوں‘‘۔
میں چونک کر امجد کے دھندلائے چہرے کی طرف دیکھتاجہاں زندگی کی بھیانک پرچھائیاں رقص کرتی نظر آتیں۔
’’بھو، بھو، بھو‘‘۔
بڑے پریس کے برآمدے میں بیٹھا ہوا کتا اچانک بھونکنے لگتا۔
’’در حرامی۔۔۔۔‘‘
قریب ہی کوئی گہری نیند سے جاگ کر کتے کو گالی دیتا اور کتا آواز سن کر خاموش ہو جاتا اور چاروں طرف پھروہی چپ چھا جاتی۔
’’افسانہ۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔ میں افسانہ لکھنا چاہتاہوں‘‘۔
’’پلاٹ مل گیا ہے‘‘۔
’’پلاٹ۔۔۔!‘‘
’’راحت ملی تھی‘‘۔
’’راحت۔۔ ہاں آج آئی تھی۔ اسے افسانہ چاہیے تھا‘‘۔
میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ وہ مجھے زمین کے اس ٹکڑے کی طرح لگا جہاں آکر روشنی کی آخری کرن بھی دم توڑ دیتی ہے جو روشنی اور تاریکی کا سنگم بن کررہ جاتی ہے اور پھر وہ راحت بھی کتنی عجیب تھی جو سنگ مرمرکی طرح امجد کو اپنے اندرجذب نہیں کرناچاہتی تھی بلکہ لمحے لمحے کی طرح اس کے رگ و ریشہ میں سرایت کرتی جارہی تھی۔
’’امجد‘‘۔
’’ہوں‘‘۔
’’کل سے یہ پل ٹوٹنا شروع ہو جائے گا‘‘۔
’’اچھا‘‘۔
اس کے لہجے میں کرب تھا۔
’’ہم کہاں جائیں گے؟‘‘
’’ہم‘‘۔
’’ہم‘‘۔
’’ہم‘‘۔ امجدنے پل کی طرف دیکھا اورپھر میرے چہرے کی طرف دیکھا۔ ہم کہاں جائیں گے۔ کہیں بھی نہیں۔ پل کے ساتھ ساتھ ہم بھی اپنے وجود کو توڑنا شروع کر دیں گے۔ پرانے وجود کو لاکھوں برس پرانے وجود کو، بوڑھے وجود کو، جسے ابھی تک بھاری ٹریفک کے لیے بند نہیں کیا گیا۔کرب کا بھاری ٹریفک اب بھی وجود کے انگ انگ پر بھاری وزنی پہیوں سے گزررہا ہے۔ ہم اپنے وجود سے کرب کے بھاری ٹریفک کو نہیں روک سکتے۔ کرب کا بھاری ٹریفک نہیں رک سکتا۔
ہمارا بوڑھا وجود کرب کی بھاری ٹریفک کی مکروہ گڑگڑاہٹ اب بھی سن رہاہے۔ سنتا رہاہے، سنتا رہے گا۔ وجود ریشہ ریشہ ہوچکا ہے۔ لیکن بھاری ٹریفک کو کون روکے گا۔ وہ خاموش ہو گیا۔ پھر خود ہی کہنے لگا، ’’ہم سیڑھیوں والے پل پرچلے جائیں گے اور بوڑھے پل کی جگہ نئے پل کر سراسیس کو دیکھیں گے۔ پھر ایک روز نیا پل پرانا پل بن جائے گا۔ اس پر سے بھاری ٹریفک کو روک دیاجائے گا۔ لیکن ہمارا وجود، بوڑھا، پراناوجود۔۔۔ بھاری ٹریفک‘‘۔
یک بیک موسم خراب ہو گیا۔ تیز ہوا نے اپنا رخ زمین کی طرف کرکے ساری بستی کو اپنی زد میں لینا شروع کر دیا۔ پھر تیز ہوا نے خوفناک شکل اختیارکر لی۔ اونچی نیچی پختہ عمارتیں اورگھاس پوس کی جھونپڑیاں، تیزہوا کا نشانہ بننے لگیں۔ تیزہوا زرد دھول کا ایک طوفان ساتھ لائی۔ ساری بستی دھول میں گم ہو گئی۔ ہر شے کا اپناوجود ختم ہوگیا۔ لوگوں کے چہرے مٹی میں اٹ کر اپنی ہیئیت کھو چکے تھے۔ انکے چہرے سیاہی اور زردی کی دوہری لیپ سے مکروہ ہوگئے تھے۔
دوسری صبح جب سورج اپنی نرم گداز کرنوں سے آبادی کو اپنی بانہوں میں لینے لگا تو لوگوں نے دیکھا ، تنگ مکانوں کی دیواریں اپنی جگہ سے غائب تھیں۔ دیواریں ہوا اڑاکر لے گئی تھی۔ اورچھتیں زمین اور آسمان کے درمیان معلق ہوکر رہ گئی تھیں۔ غلیظ کمروں کی چھتیں بارش سے بیٹھ گئیں تھیں۔ خالی خالی دیواریں تھیں جن کے اندر بیٹھ کر دوردور تک پھیلی خلا سے پرے (رنگ بدلتے)آسمان کو آسانی سے دیکھا جا سکتاتھا۔ لوگوں کے چہروں کی رنگت پیلی پڑ گئی تھی۔ تیز بارش انکی آنکھوں سے پانی بہا کر لے گئی تھی۔ اب لوگ چٹے دیدے نچاتے ہوئے ایک دوسرے کو طنزیہ نظروں سے گھور رہے تھے۔ایک دوسرے کو چٹے دیدے والاکہہ کر پکاررہے تھے کہ اب تک کسی نے آئینہ نہیں دیکھا تھا۔
تیز بارش اور آندھی پل کی ریلنگ اور سڑک کو اڑا کر لے گئی اب وہاں پلررہ گئے تھے۔ اداس اور ویران پلر۔ جیسے ابھی ابھی مقدس مسیح وزنی صلیب اٹھا کر لائے ہیں۔ اور پلاتوس کے حکم سے انہیں گڑوا دیا گیا ہے کہ ان پر خدا کی روح دوسروں میں منتقل کرنے والا اور اس کے ساتھی لٹکائے جائیں گے۔ پھر ایک روز آخری پلر بھی جس کی جڑیں سینکڑوں سال سے زمین کے سینے میں پیوست تھیں شمس تبریز کی کھال کی طرح نوچ کر دور پھینک دیاگیا، تو میں اور امجد درد بھری نظروں سے ٹوٹے ہوئے پل کو دیکھتے ہوئے سیڑھیوں والے پل کی طرف چل دیئے اور دونو ں پل کی اونچی ریلنگ پر کہنیاں ٹیک کر اپنے اپنے خیالوں میں گم ہوگئے۔
اچانک ایک انجن چھک چھک کرتا پل کے نیچے سے گزرا، ایک لمحے کے لیے انجن کا کثیف دھواں مرغولے کھاتا ہوا فضا میں اٹھا اور پھربکھر گیا۔میں نے امجد کی طرف دیکھا، اورامجد مجھے انجن کی طرح لگنے لگا۔ اس انجن کی طرح جس کے پیچھے بے شمار بوگیاں بندھی ہوں اور وہ کرب سے چیختا چلاتا تیزی سے بھاگے جارہا ہو۔
میں شٹنگ کرتے ہوئے انجن کو دیکھنے لگا جو متوازی خط کی دور تک پھیلی پٹڑی پر دوڑتا چلا گیا۔ جیسے اس کی کوئی منزل نہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے کوئی بوگی اس کا دامن پکڑتی اور پھر اچانک ایک جھٹکے سے اسے چھڑا کر تیزی سے اکیلی بھاگنے لگتی۔ اورکچھ ہی دیر بعد بہت سی بوگیوں میں مل کر اپنا وجود کھو دیتی یاکسی اکیلے ویران پلیٹ فارم پر جاکھڑی ہوتی جہاں سالوں تک اسے کوئی نہیں پوچھتا تھا۔
میں نے سوچا اگر یہ آپس میں ٹکراجائیں۔۔۔
’’امجد۔۔۔۔ یہ آپس میں ٹکرا جائیں تو۔۔۔۔‘‘
’’ایک زور دار دھماکا ہوگا۔۔۔ اور پھر۔۔۔۔پھر۔۔۔۔ خدا جانے کیاہو‘‘۔
’’یہ بوگیاں انجن کا ہاتھ پکڑ کر چھوڑ دیتی ہیں۔ ہیں نا امجد‘‘۔
’’بے چارے انجن۔۔۔‘‘
’’بے چاری بوگیاں۔۔۔۔‘‘
’’شاید۔۔۔۔‘‘
’’راحت ملی تھی‘‘۔
’’آج آئی تھی‘‘۔
’’افسانہ لینے‘‘۔
’’اسے افسانہ چاہیے تھا‘‘۔
’’پلاٹ مل گیا‘‘۔
’’پلاٹ تو ہے ہی۔ کلائمکس۔۔۔‘‘
’’تم راحت کے لیے کب تک افسانے لکھتے رہو گے‘‘۔
’’کب تک‘‘۔
’’ہاں، کب تک۔ تم اسے خط کیوں نہیں لکھتے‘‘۔
’’خط ۔۔۔۔ ہاں مجھے خط لکھنا چاہیے‘‘۔
پھر کئی دن رات کی سیاہیوں میں ڈوب گئے۔ پرانے پل کی جگہ نیا پل جنم لیتارہا۔ ایک روز میں جب پل پر پہنچا، امجد پل کی ریلنگ پر کہنیاں ٹیکے دور اسٹیشن کی بتیوں کو گھور رہا تھا۔ جلتی بجھتی بتیاں چاروں اورپھیلے اندھیرے کے سینے میں شگاف ڈالنے کی کوشش کررہی تھیں۔ آج بتیوں کی روشنی بھی ڈوبتی محسوس ہورہی تھی جیسے اندھیرے کا سیلاب کچھ ہی لمحوں کے بعد روشنیوں کوہمیشہ کے لیے نگل لے گا۔ اندھیرے میں ڈوبا ہوا پل اداس اداس نظروں سے اپنے ساتھیوں کو بٹ بٹ دیکھ رہا تھا۔ چاروں اور پھیلی پٹڑیوں پر ہمیشہ کی صورت انجن ایک بوگی کا ہاتھ پکڑے تیزی سے پٹریاں بدل رہا تھا۔
’’راحت آئی تھی‘‘۔
میں نے ہمیشہ کی طرح سوال کیا۔
’’نہیں‘‘۔
’’نہیں‘‘۔
میں حیران رہ گیا۔
’’خط لکھا تھا؟ جواب آیا؟‘‘
میں نے جلدی سے دونوں سوال کر دیئے۔
’’ہاں‘‘۔
میں نے امجد کی طرف دیکھا، وہ میری طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر اس کی نظریں دور شنٹگ کرتے ہوئے انجن پر جا پڑیں۔
’’جواب‘‘۔
وہ بڑبڑایا۔
اسی لمحے بوگی نے انجن سے ہاتھ چھڑالیا اور تیزی سے انجن کی مخالف سمت دوڑنے لگی۔ انجن چند لمحے وہاں رکا، اور پھر آہستہ آہستہ واپس لوٹنے لگا۔
’’آؤ چلیں‘‘۔
امجد نے کہا۔ اور ہم آہستہ آہستہ پل سے اترنے لگے۔