غزل ۔۔۔ اعتبار ساجد

غزل

اعتبار ساجد

مجھے کیوں عزیز تر ہے یہ دھواں دھواں سا موسم

یہ ہوائے شام ہجراں مجھے راس ہے تو کیوں ہے

تجھے کھو کے سوچتا ہوں مرے دامن طلب میں

کوئی خواب ہے تو کیوں ہے کوئی آس ہے تو کیوں ہے

میں اجڑ کے بھی ہوں تیرا تو بچھڑ کے بھی ہے میرا

یہ یقین ہے تو کیوں ہے یہ قیاس ہے تو کیوں ہے

مرے تن برہنہ دشمن اسی غم میں گھل رہے ہیں

کہ مرے بدن پہ سالم یہ لباس ہے تو کیوں ہے

کبھی پوچھ اس کے دل سے کہ یہ خوش مزاج شاعر

بہت اپنی شاعری میں جو اداس ہے تو کیوں ہے

ترا کس نے دل بجھایا مرے اعتبار ساجد

یہ چراغ ہجر اب تک ترے پاس ہے تو کیوں ہے

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930