ایک خط ۔۔۔ اختر حسین جعفری
“ایک خط ــــــ آشنا ورثوں کے نام”
(اختر حسین
جعفری )
گئے
زمانے کے راستے پر
پہاڑ، سُورج، زمین، دریا
نقوُشِ پا، نام، ذات، چہرہ
میں اپنے چہرے سے مُنحرف
ہُوں
گئے زمانے کے راستے پر
سزا کی رُت کے طویل دن کا
خطیر ورثہ مِرا بدن ہے، مِرا لہُو ہے
میں اپنے ورثے سے دَست کش
ہُوں
یہ آشنا صُبح کا ستارا
کہ جس کی آگاہیوں کا
ناسُور، میرے سینے میں جَل رہا ہے
میں اِس ستارے کی سمت رُو
بر قفا کھڑا ہُوں
میں اپنے باطن کی اَوٹ میں
ہُوں
یہ خشتِ ساعت کہ جس کی
بالیں سے جسم آدھا نِکل کے مُجھ کو بُلا رہا ہے
اُسے یہ کہنا، لہُو کا ہتھیار
کُند نِکلا، مراجعت کی دُعا نہ مانگے
اُسے یہ کہنا، کہ تیرا بیٹا
نجات کی آرزوُ میں اُس منزلِ دُعا سے گُزر گیا ہے
جہاں تِرے اَشک بے جَزا تھے
جہاں تِری قبر بے نشاں ہے
اُسے یہ کہنا ـــــــــــ “سزا کی رُت کے طویل دن میں مراجعت کی دُعا نہ مانگے”