غزل ۔۔۔ اختر کاظمی
غزل
( اختر کاظمی )
آنکھیں نہیں
ملتیں کبھی چہرہ نہیں ملتا
اس شہر میں اب
کوئی بھی پورا نہیں ملتا
رکنے بھی نہیں
دیتا کبھی وقت سکوں سے
چلنے کے لئے بھی
کوئی رستہ نہیں ملتا
کیا ڈھونڈنے
نکلیں نئے امکانوں کے چہرے
ہم کو
تو سراغ عمر بھر اپنا نہیں ملتا
جانے
یہ سرابوں کا سمندر ہے کہاں تک
صدیوں
سے ہمیں کوئی کنارا نہیں ملتا
کون آ
ئے گا دکھ بانٹنے کے واسطے اختر
اب تو
یہاں جھوٹا بھی دلاسا نہیں ملتا
Facebook Comments Box