ممی۔ اماں ۔ماما ۔۔۔۔ آمنہ مفتی
ممی ، اماں ، ما ما!
آمنہ مفتی
ننھا سا بگولہ فٹ پاتھ کے سرے پر ناچ رہا تھا۔ ایک کالا شاپر، سفیدے کے چند پتے، چپس کا خالی لفافہ ہوا کی چک پھیریوں کے ساتھ ذرا سا بلند ہوتے اور پھر زمین پر گرنے لگتے مگر فرش پر گرنے سے پہلے ہی ہوا دوبارہ انہیں اچھال دیتی ۔ سرخ اور زرد لفافہ، کالا شاپر اور سفیدے کے پتے، تین شرارتی بچوں کی طرح ہاتھ پکڑے، بول مری پچھلی کتنا پانی ، اتنا پانی کرتےگول گول گھوے جارہے تھےگھومے جارہے تھے جیسے با وسجاد گھر سے دکان ، دکان سے گھر کے در میان گھومے جا رہا تھا، گھومے جا رہا تھا ۔بے مقصد بے تکان۔ ” برا سمندر، گوپی چندر ، بول مری مچھلی ۔۔۔”گہرے سمندر میں رنگ برنگی گاڑیاں تھیں ، بھرر بھرر کرتے موٹرسائیکل اور ایک جیسی تیار شدہ کپڑوں کی دکانیں جہاں عورتوں ، بچوں اور مردوں کے سستے ریڈی میڈ ملبوسات بکا کرتے تھے۔
المونیم کے چوکھٹوں میں سستے شیشے جڑے ہوئے جن کے پار سر کئے، بازو کٹے لنجے سے پُتلے درجنوں کے حساب سے ٹنگے ہوئے تھے ۔ ایک پر بابا سوٹ ، دوسرے پر جھالروں والا ٹشو کا کاسنی فراک، جس کے گلے پر موتیوں کی لڑیاں لگی ہوئی تھیں، ایک پر قیدیوں کے لباس جیسا دھاری دار شب خوابی کا لباس، ایک پرتو لیے کا چوغا ۔ دکان کے ماتھے پر کاسنی رنگ سے جلی حروف میں ” بانی فائی گارنمٹس‘‘ لکھا ہوا تھا۔
شیشے کے پار سڑک پر ننھے پتے بگولے کی صورت رقص کر رہے تھے۔ باؤسجاد نے اکتا کر سڑک سے نظر ہٹالی ۔ سامنے ” ممی‘‘ کا مجسمہ تھا۔
ممی وہ واحد ڈمی تھی جس کا سراس کے شانوں پر قائم تھا۔ دونوں بازوبھی تھے۔ جسم کے خطوط دل آویز اور سر پرنقلی بالوں کی بھوری وگ بھی تھی ۔ ” ممی” دکان کی آرائش کے لیے خریدا جانے والا پہلا اور آخری مجسمہ تھا۔ کیولری کے پل پر، جہاں ایک دکان جہاں پر فوکسی کا آدھا حصہ کاٹ کرلگایاگیا ہے، وہیں اوپر آذرکی مجسموں کی دکان ہے
آذر پلاسٹر آف پیرس کی ڈ مینز بنا کربیچتا تھا ۔ بوتیک والے یہ مجسمے آرڈر پر بھی بنواتے ہیں۔
لیکن جب باو سجاد نے آذر کے کمرے میں قدم رکھا تو اسے پہلی نظر ہی میں ممی پسند آ گئی ۔ آذرنے
ایک نظرہی میں باؤ کو بھانپ لیا تھا۔باو جیسے لوگ کہاں ایسے مجسمے خرید سکتے ہیں ؟ایسے لوگوں کو وہ وقت ضائع کرنے والے لوگ کہتا تھا۔ اسی لیے جب باؤنے ممی کی قیمت پوچھی تو وہ بہرا بن کے کسی اور طرف متوجہ ہو گیا۔ باونے نظر بھر کے ممی کی طرف دیکھا ممی کےی آنکھیں بھوری اور ہونٹ بھرے بھرے تھے۔ ایک ہاتھ کمر پر رکھا ہوا تھا اور دوسرا بڑی ادا سے ، جیسے رقص کے کسی بھاو میں، نرت کی کسی ادا میں ٹھہر گیا تھا۔ انگلیاں قریب قریب اور شہادت کی انگلی ان سے ذ را سی الگ ، جیسے ایک علیحدہ اعلان تھی۔
” یہ ” ۔۔۔ باؤنے کھنکھار کے آذر کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا۔ آذرنے نخوت سے نظر اٹھائی ۔ ” یہ ممی ہے ” اس نے جیسے کسی اور کو اطلاع دی۔
“اس کی قیمت؟‘‘ باؤنے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
آذر نے حقارت سے باو کو دیکھا اور پھر منہ پھیر کے ناک کی سیدھ میں دیکھنے لگا اور سامنے ولوار کو انار کلی کے ایک ہول سیل ڈیلر کا پتا سمجھانے لگا جوپلاسٹک کے آدھی جسمانی ساخت والے ہینگر فروخت کرتا تھا۔ با وسجاد اپنی ہتک کو پی گیا ۔ دوایک بارکھنکھارا شلوار کی کر یز کو ٹھیک کیا اور پر پھر ممی کی قیمت پوچھی۔
آذر نے آخری بار غور سے با وسجاد کو دیکھا اور منہ پھاڑ کے پانچ ہزار مانگ لیے۔ باو ذرا دیر کے لیے تذبذب میں پڑ گیا، پھر کھنکھار کے دو بارہ ممی کو دیکھا۔ اب کی بار اس کے گالوں پرلگا غازہ بھی نظر آیا اور پلوں کا نسواری سا غبار جو کمان سی بھنووں اور سیپ جیسے پپوٹوں کے درمیان چھایا ہوا تھا۔
آذر مطمئن ہو گیا تھا اور بڑے آرام سے مردانه بوتیک کے لیے آرڈر پہ بنے سیاہ اور سرمئی بے چہره مجسموں کی گنتی کرنے لگا تھا کہ باؤ سجاد نے کھنکھار کر کہا:”لو جی یہ آپ کے پانچ ہزار، اب یہ ممی ہماری۔” ممی بے چاری بنی تو تھی بوتیک پہ شلوار قمیص پہننے کو لیکن باو سجاد کی دکان میں اسے عجیب مخرب اخلاق لباس پہن کر شو کیس میں کھڑا ہونا پڑا۔ پہلے ہی دن دکان کے باہر ٹھٹ کے ٹھٹ لگ گئے۔ ایک راہ گیر نے کوئی فقرہ کسا تو اپنی بیوی کے ساتھ وہاں سے گزرتے ریٹائرڈ صوبیدارمیجر امتیاز نے اس کی ناک پر گھونسہ جمایا۔
اچھا خاصا خون خرابہ ہوگیا، پولیس پہنچ گئی۔ ملٹری پولیس نے اسے اپنے علاقے میں مداخلت سمجھا اور دونوں اداروں میں ٹھنا ٹھنی ہو گئی۔ تلخ ترش سرکاری خطوط کا تبادلہ ہوا کہ کیوں نہ اسے اپنے اختیارات کے دائرے سے باہر قدم رکھنے کے مترادف سمجھتے ہوئے کارروائی کی جائے؟ وغیرہ وغیرہ۔
یہ قصہ نمٹایا گیا تو انجمن اصلاح معاشرہ والے آدھمکے۔ متشرع داڑھی، چناح کیپ اور چیختی ہوئی آواز والے بڑے میاں مصر تھے کہ ممی کا بائی نفلی گارمنٹس کے شوکیس میں کھڑا ہونا اوراس قسم
کے بیہودہ، تیار شدہ ز یر جاموں وغیرہ کا پہنا اس قوم کو عاد اور ثمود کی قوم کی طرح گمراہ کر دے۔ یہ قوم قوم لوط بن جائے گی، گھر گھر زلیخایئں پیدا ہوں گی اور کسی یوسف کا دامن سلامت نہیں رے گا۔ با وسجاد نے ان کی ساری بات تحمل سے سنی اور ان سے وعدہ کیا کہ وہ آیند ہ ممی کو بے پردہ نہیں رکھے گا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پھر وہ کرتا کیا؟ اس کی دکان میں ممی کو پہنانے کے لیے اور تھا ہی کیا؟ اس دن وہ بہت اداس رہا۔ آذر کی بات درستگی: وہ اس قابل ہی نہیں تھا کہ ممی کو خرید سکتا اسی کو وہیں رہنے دینا چاہیے تھا جہاں سے کوئی بوتیک والا اسے لے جاتا اور اس کی شان کے شایان لباس پہنا تا۔ سارا دن اسی سوچ میں رہا۔ شام کو فراکوں کی ڈلیوری آئی۔ لاٹ لانے والا اس کا دوست بڑی دیر تک ملائیشیا کے ” شی میلز” اور پھوکٹ‘‘ شہر کی رنگینیوں کا ذکر کرتا رہا۔ اس کے منہ سے ماس خورے کی بو آرہی تھی اور بھتی ہوئی آنکھوں میں حسرتیں ناچ رہی تھیں ۔ سجادکی کوفت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اچانک اسے نہ جانے کیا ہوا کہ اس نے ممی کی ساری کہانی اپنے دوست کو سنا دی۔ ذرا دیر تو وہ منہ کھولے سنتا رہا، پھر چٹکی بجا کر بولا:”لو جی مسئلہ حل ہو گیا، اگلی بار میں نائیٹ گاؤن اور لیڈیز سلیپنگ سوٹ لے آؤں گا ۔ ممی بھی خوش قمی بھی خوش
لیکن جب باؤ سجاد نے ممی کو جھالروں والا جالی دار گاؤن پہنا کر سجاوٹی ڈبے میں کھڑا کیا تو ملک میں اسلامی انتہا پسندوں کے گور پلے دندناتے پھر رہے تھے۔ تیسرے ہی دن اس بازار کے پارکنگ ایریا میں کھڑ ایک لاوارث موٹر سائیکل دھماکے سے پھٹ گیا اور شام تک دھماکے کی ذمے داری بھی قبول کر لی گئی اور اس کی وجوہ کا بھی اعلان کر دیا گیا، جو ظاہر ہے ممی کا اخلاق باختہ لباس تھا! اخبار والے کیمرے لے کر ٹوٹ پڑے۔ بڑے بڑے معنک صحافی اور تجزیہ نگارممی کے جلوے سے پیدا ہونے والے بحران کے مختلف پوشیدہ اور نیم پوشیدہ پہلوؤں پر روشنی ڈالنے لگے۔ ایک مشہور صحافی نے پینتالیس منٹ کے پروگرام میں بارہ دفعہ اعلان کیا کہ ملک اپنی تجارت کے ایک بے حد نازک دور سے گزر رہا ہے اور یہی وہ وقت ہے جب ساری مسلم امہ کو یکجا ہو کر آنے والی کل کے بارے میں ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا چاہیئے۔
اگلے دن صبح صبح محکمہ پولیس کا ایک اعلی بہت ساری لال نیلی بتیوں والی گاڑی میں سوار ہو کے ” ہائی فائی گارمنٹس” پہنچا۔ باو سجاد بچھ بچھ گیا۔ افسر نے اپنی سرکاری چھٹڑی سےممی کوخوبٹھونک بجا کر دیکھا۔ جالی دارگا ون کو ہاتھ لگا لگا کر چیک کیا، پھر دیر تک پنسل منہ میں ڈالے سوچتا رہا کہ ممی پرکون کی سی دفعہ لگائی جائے؟ لیکن با وسجاد نے پہلے ہی ایک تھیلے میں دو گاؤن اور بہت سے دیگرملبوسات بھر کے اسکے گھٹنے کے پاس رکھ دیے تھے۔ افسر کا ڈیل ڈول خوب شاندار تھا اور محاورے کے مصداق جہاں اس کی عقل تھی وہاں سے کپڑوں کا لفافه زیادہ قریب تھا اور مقام حادثہ دور۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ ممی سیتا کی طرح پوتر اور مریم کی طرح پاک ہے۔ دھماکہ کرنے والوں کے اپنے ذہن میں فتور ہے بلکہ نجی محفلوں میں لوگ کئی دن تک یہی کہتے رہے کہ یہ ‘ ایجنسیوں ‘ کا بم تھا۔
باو سجاد اب محتاط ہو گیا تھا اور ایک دن دکان بند ہونے سے پہلے اس نےممی کو سجا وئی ڈبے سے نکال کر دکان میں اس جگہ رکھ دیا جہاں سے رابی کی نظر تو نہ پڑے لیکن وہ خود اور دکان میں آنے والے گا ہک بخوبی اسے دیکھے سکیں۔۔ شروع شروع میں تو امن رہا۔ پھر باؤ سجاد نے محسوس کیا کہ دکان پر کام کرنے والے دونوں لونڈے، جن کے نئے گاہکوں کے جانے کے بعدان کے رد کر دہ کیڑوں کو دو بارہ تہہ کر کے تھیلوں میں بند کرنے کا کام تھا، الٹے سیدھے کپڑے باندھ کر یہاں ممی کے سامنے آ کھڑے ہوتے ، آئیں میں کہنیاں چلاتے ، ذومعنی باتیں کرتے اور بے بات ہنستے۔ کچھ دن تو باوچپ رہا۔ پھر ایک دن اس نے دونوں کو خوب ڈانٹا۔ دونوں کے منہ لٹک گئے ۔ باؤ کو بھی دکھ ہوا۔ سارا دن بوجھل سا گزرا۔ لیکن اسی دن شام کو جب باو دکان کی چھت پہ بنے بیت الخلاء سے واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ چھوٹا لڑکا ، اکرم ممی کے سامنے کھڑا دیوانہ وار ہنسے جارہا ہے ۔ جیسے شادیوں بیاہوں یا دیگر نیم مخلوط تقریبات میں لڑکے لڑکیوں کو دیکھ کر بے وجہ ہنستے ہیں، اسی طرح – با وسجاد کو بہت غصہ آیا اس نے اکرم کے منہ پر تھپڑ جمائے ۔ اکرم بے چارہ خوب رویا۔ اکرم کی ماں کچھ برس پہلے مری تھی اور باپ اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کی ماں کو چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔ ایک طرح سے اکرم باو ہی کی اولاد تھا۔ اس کے ساتھ رہتا تھا۔
اس واقعے کے تیسرے روز اکرم غائب ہو گیا۔ ساتھ کام کرنے والے لڑکے نے بتایا کہ پچھلے چندہفتوں سے اکرم اکثر بھاگنے کا ذکر کیا کرتا تھا۔ غائب ہونے سے ایک رات پہلے بھی وہ یہی کہہ رہا تھا کہ میں ایک دن ایسا بھاگوں گا کہ یا و جی ڈھونڈتے رہ جائیں گے۔
اس واقعے کے بعد با وسجاد کا دل ممی سے کھٹا ہو گیا اور وہ سوچنے لگا کہ اسے آذر کے پاس واپس پہنچا دے۔ یہ فیصلہ کر کے وہ ہلکا پھلکا ہو گیا ۔ لیکن اگلے روز شام کو جب آذر کے پاس پہنچا تو اس نے ممی کو واپس لینے سے صاف انکار کر دیا۔ بلکہ عینک کے شیشوں کے پیچھے اپنے پھیلے ہوئے دیدے مزید پھیلاتے ہوئے اسے تین ڈمیز اور خریدنے کا مشورہ دیا۔
” یہ ٹام، یہ لنڈا اور یہ جیک ، تینوں ممی ہی کے بچے ہیں ۔ اس روز جب تم ممی کو لے کر گئے تھے تو ان پر کے پینٹ ابھی سوکھے نہیں تھے۔ اس لیے انہیں ورکشاپ سے یہاں منتقل نہیں کیا گیا تھا اور تم صرف ممی کو لے گئے تھے۔ ” آذرتے سرد لہجے میں مطلع کیا۔
باو سجاد گھبرا گیا ۔ ” کیا مجسموں کے بھی بچے ہوتے ہیں ؟”
“ہوتے ہیں “۔ آذر نے وثوق سے کہا۔
“دیکھو، میں نے پورا کنبہ بنایا تھا۔ ایک ماں اور اس کے تین بچے۔ تم بچوں کو بھی لے جاو ورنہ ۔۔۔”
” ورنہ کیا ؟ ” با سجاد نے بے صبری سے پوچھا۔
جو کچھ ممی کے تمہاری دکان پر آنے کے بعد بوا سب میرے علم میں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ تم بچوں کو بھی لے جا و۔ ” آزرنے دبے دبے دھمکی آمیز انداز میں کہا۔ باو سجاد واپس آ گیا۔ ” بھلا یہ بھی ۔ کوئی بات ہوئی ؟“ اس نے غصے سے سوچا ۔ سامنے ممی کھڑی تھی ۔ گلابی رنگ کا جالی د ارگاون پہنے، چہرے پر مسکراہٹ ، گالوں پر غازہ اور نرت کرتی ہوئی انگلیاں ۔ممی کے وجود پر یہ گاون کی قد ر کھل رہا تھا اور یہی وجہ تھی کہ اس کے ساتھ کاسب مال چند دن میں فروخت ہوگیا تھا۔
” خوا ہ مخواہ وہم ہے میرا۔ ” با وسجاد نے سر جھٹکا۔ پھر اس نے سوچا کہ اسے اس مجسمے کا نام ممی نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ معلوم نہیں اس بڈھے جادوگر نے کیا ٹونا کر رکھا ہے اور یوں بھی ممی بھلا کوئی نام ہوتا ہے؟ اس کا نام تو ۔۔۔۔ تانیہ ہونا چاہیے۔
“اوئے بات سن “۔ اس نے لڑکے کو پکارا۔
“یہ جوڈمی ہے ناں؟ اس کا نا م تانیہ ہے۔ ” لڑکے نے کچھ نہ سمجھ میں آنے کے باوجودسر کوہلا دیا۔ باو کو یک گونہ تسلی ہوئی لیکن یہ سکون عارضی تھا۔ ذرا دیر بعد ہی دل میں وہی بے قراری اٹھنے لگی۔ ” تانیہ ” ۔۔۔ باو نے پکارا۔ سورج ژوبنے والا تھا اور اس کی آخری شعاعیں دکان شیشے میں سے گزر کر ممی کے چہرے پر پڑ رہی تھیں ۔اچا نک با وسجاد کو لگا کہ ممی کی پلکیں ہلی پیں
وہ چونک گیا۔ پھر اسے لگا کہ سورج کی شعاعوں نے آہستہ آہستہ ممی کے چہرے کو پگھلانا شروع کردیا ہے، بھورے بال جڑوں سے سفید ہونے لگے ، پپوٹے ڈھلک گئے ، دونوں گالوں پر قاشیں سی پڑ گیئں۔ سرخ گداز ہوئٹ مر جھا کے بغیر دانتوں کے مسوڑھوں پر منڈھے ہوے محسوس ہونے لگے۔ جالی دار گا ؤن میں اس کا جسم جھریوں سے اٹ گیا، ڈھلک گیا۔ باو حیرت سے منہ کھولے ممی کو دیکھتا رہا۔ اس کے چہرے کے نقوش چیرت انگیز طور پر جانے پہچانے لگ رہے تھے۔
”اماں ۔” اس کے ہونٹوں سے سرگوشی کی صورت نکلا۔ اسے لگا ممی نے اسے نفرت سے گھورا ہو۔ جیسے وہ اس سے نفرت کرتی ہو۔ اس کے ہونٹ اوربھنچ گئے جیسے وہ اس کے منہ پر تھوکنا چاہتی ہو اور خودکو روک رہی ہور شہادت کی انگلی اٹھائے اٹھائے ممی نے رقصاں درویشوں کی طرح گھومنا شروع کر دیا۔ باؤ کو ایسا لگا کسی نے اسے ٹائم مشین میں ڈال کر سالوں پچھے پھینک دیا ہو۔
سالوں پچھے ۔۔۔۔ مادھولال حسین کے میلے پرناچتی ہوئی اس کی ماں اور یہ ممی ؟ وہخوف زدہ ہو گیا۔ اس کے حلق سے گھٹی گھٹی چیخیں نکلنے لگیں۔ ممی نے ٹھٹھک کر اس کی طرف دیکھا اور پھر اسی طرح ناچتے ہوے اس کی طرف بڑھی۔
کام والے لونڈے نے بس اتنا دیکھا کہ باؤ کسی چیز سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پھر وہ بے ہوش ہو گیا۔ ہوش میں آتے ہی با وسجاد آذر کی دکان پر پہنچا، دکان بندتھی ۔ ساتھ والے دکاندار نے بتایا کہ آذر دکان بند کر گیا ہے اور جاتے جاتے سب سامان بھی لے گیا ہے سوائے چند مجسموں کے جو کسی ایسے گاہک کے لیے رکھے ہیں جو ان کے دام چکائے بغیر بھاگ گیا تھا۔
باؤنے اس کی بڑی منت کی کہ اسے آذر کا پتا بتا دے۔ لیکن اسے کچھ پتا ہوتا تو بتاتا۔ آخر تھک کر باؤنے اسے کہا کہ اگر بھی آذر ملے تو اسے کہنا کہ نام لنڈا اور جیک کو گھر بجھوا دے۔ ممی انتظار کر رہی ہے۔ ساتھ ہی ایک لفافے میں ایک موٹی رقم بھی رکھ دی۔۔ دکان دار نے کچھ آنا کانی کے اسکی مدد کرنے کی حامی بھر لی۔
پتے ہوا میں اڑتے اڑتے ساکن ہوئےاور فرش پر جا پڑے ۔ ہوا کا زور دار جھونکا آیا اور کالا شاپر بھوت کی طرح ناچتا ہوا اس کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔چپس کا خالی لفافہ فٹ پاتھ پہ جیسے لڑکنیاں
کھاتا رہ گیا۔ باو سجاد نے شیشے کے پار سے نظر آتے منظر سے نظریں ہٹا کرممی کی طرف دیکھا تو اسے جھر جھری سی آ گئی۔ اکرم کا قتل کس قدر خوفناک تھا۔ سر بریده جسم گندے نالے سے ملا تھا اور سر جھاڑیوں سے۔ اس رات باو سجاد پوری رات روتا رہا تھا۔ اسے رہ رہ کر اپنی حرکت پر پریشانی ہوتی تھی ۔ کاش وہ اس روز اکرم کو نہ مارتا مجسمہ ہی تھاناں؟ لیکن اکرم کا اس طرح ممی کے سامنے ہنسنا ؟ اگلے روز وہ پھر آذر کی دکان پر گیا ۔ اس سے اگلے دن اور پھر اگلے بہت سے دن۔ مگر آذر کہیں غائب ہو گیا تھا۔ سجاد اس کی دکان کے ٹھنڈے شیشے سے ناک چپکا کر اندر جھانکتا تھا جہاں مدھم سے اجالے میں تینوں بچے اپنی حیران آنکھوں سے اسے تکتے تھے۔
با وسجاد کی طبیعت خراب رہنے لگی ۔ دکان پر گاہکوں سے بد مزا جی اس کا شعار بن گئی ۔ دکان کے مددگار لونڈے کو بے بات دھمکانا اور گھنٹوں بیٹھے کچھ سوچتے رہنا۔ آس پاس کے لوگ کہتے تھے کہ با وسجاد پاگل ہو گیا ہے۔
اور ایک دن اس نے اسی کیفیت میں آذر کی دکان کا شیشہ توڑ دیا۔ لوگوں نے اسے پکڑا اور چوری کے شبے میں تھانے میں دے دیا۔ معمولی واقعہ تھا۔ کچی رپورٹ پر کچھ لے دے کے چھوڑ دیا گیا۔ لیکن با وسجاد کے پیراب اکھڑ چکے تھے۔ کاروبار میں دل ہی نہیں لگتا تھا اور گھر جاتا تھا تو خالی گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا۔ تنگ آ کے وہ لارنس باغ چلا جاتا لیکن دل اسی طرح بے قرار رہتا تھا۔
اس روز بھی وہ لارنس گارڈن سے چہل قدمی کے بعد گھر لوٹا تو اس نے دیکھا دروازے کے قریب کچھ سایے کھڑے ہیں ۔ پہلے تو ڈرا، پھر جب دیکھا کہ نہ ہلتے ہیں نہ جلتے ہیں تو پاس گیا۔ نیم اندھیرے میں اس نے دیکھا کہ یہ ٹام، لنڈا اور جیک تھے۔ تینوں کے چہروں پر شرارتی مسکراہٹ تھی۔ باو کو لگا ایک لمحے کے لیے آسمان زمین اوپر نیچے ہو گئے ہیں اور جیسے کسی نے اسے جامن کی طرح گھلانے کے لیے ایک بڑے سے جناتی ڈونگے میں ڈال کر خوب ہلا دیا ہو۔ اس کا دماغ پیلا سا ہو گیا اور ہر تن مو سے پسینہ پھوٹ بہا۔ آنکھیں مل کر دیکھا تو وہ تینوں وہیں کھڑے مسکرارہے تھے۔
اچانک ہوا کا ایک اور زور دار جھونکا آیا اور کالا شاپر دکان کے شیشے پر چپک گیا۔ اسی لمحے شیشے کا دروازہ کھول کر تین بچے شور مچاتے ہوے اندر داخل ہوئے۔ ان کے پیچھے ان کی ماں تھی ۔ شانوں تک کئے ہوئے بھورے بال اور بھوری آنکھیں ۔اندر داخل ہوتے ہی وہ تینوں ممی کی طرف بڑھے۔
“مامادیکھیں یہ آئرن مین والی ٹی شرٹ، بس ہی لینی ہے اور یہ جوڈی نے ڈریس پہنا ہے یہ آپ لے لیں ۔ ٹھیک ہے ناں؟“
ماما نے مسکرا کرممی کی طرف دیکھا۔ باہر اچانک بہت تیز ہوائیں چلنے لگی تھیں اور ٹریفک کے خروش سے اوپر چنگھاڑ رہی تھیں