نہ مرنے والا ۔۔۔ ڈاکٹر انور سجاد
نہ مرنے والا
ڈاکٹر انور سجاد
وہ نیچے پان والے کی دکان پر ریڈیو پر پورے اعلانات سنے بغیر ہی کمرے میں لوٹ آیا تھا۔ نالیوں میں بہتا ہوا خون اس کے روئیں روئیں میں پسینہ بن کر تھرک رہاتھا۔ کمرے کا تالا کھولتے کھولتے وہ جھنجلا گیا۔ تالا ہمیشہ چابی کے پہلے پھیر میں کھل جایا کرتا تھا لیکن اس وقت چابی ہی اندر نہ جا رہی تھی۔ اس نے مضبوطی سے ایک ہاتھ میں تالے کو پکڑا اور اپنے آپ پر پوری طرح قابو کر تالا کھول لیا۔ دروازہ کھولتے ہی اس نے چابی نکال کر تالا پٹخاکے فرش پر دے مارا۔ اس نے اپنے چابی تھامے ہاتھ کو دیکھا، اس کی گرفت میں پستول کانپ رہا تھا۔
’’نہیں، نہیں۔‘‘
وہ بڑبڑایا اور پستول پر گرفت چھوڑدی۔ چابی چھناکے سے فرش پر جاپڑی۔ چابی دیکھ کر اسے جھرجھری سی آ گئی اور اس نے میز کے کنارے کو انگلیوں سے ہتھیلیوں میں نچوڑتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا۔
آج ایسا موقع پھر کبھی نہیں آئےگا۔ اگر یہ آج بھی پستول کی طرح میرے ہاتھ سے پھسل گیا تو میں آنے والے کل کے زنداں میں ہمیشہ کے لیے قید ہو جاؤں گا۔
اس کے جسم کا سارا پسینہ اس کی ہتھیلیوں میں جمع ہوکر میز کے کنارے سے ٹپکنے لگا۔ ایک قطرہ، دوسرا، تیسرا۔
لمحے ایک ایک کرکے ٹپک رہے ہیں، وہ آیا کیوں نہیں۔
اس نے چھت کی طرف دیکھا۔ پنکھا بند تھا اور بند کھڑکی کے روزنوں سے آتی ہوئی آخری کرنیں اندھیرے کی گرفت میں سسک رہی تھیں۔ اس کے سانس تیز ہو گئے۔ وہ بڑی تیزی سے بجلی کے سوئچ کے پاس گیا اور ایک ہی جھٹکے میں بجلی اور پنکھے کے بٹن دبادیے۔ کرنیں دم توڑ گئیں۔ پنکھے کی ہوا نے اس کے دماغ میں بھڑکتی لپٹوں کو لمحہ بھر کے لیے دبا دیا۔ اس نے کھڑکی کھول کر قمیص کا نچلا بٹن بھی کھول دیا۔ ریڈیو پر سنے ہوئے اعلانات سنسناتے ہوئے اس کے کانوں سے گزر گئے۔ برسات کے دنوں کی خنک ہوا نے اس کے دماغ کی آگ کو پھر بھڑکا دیا۔ دور معدوم ہوتی فائر بریگیڈ کی گھنٹیاں خاموش ہوگئیں۔ اس نے گھنٹیوں کی آواز کی سمت دیکھا۔ مشرق کی طرف بڑی روشنی ہو رہی تھی۔
سورج تو اس طرف ڈوبا ہے یا سورج ابھی غروب نہیں ہوا اور میرے کمرے میں اندھیرا بھی دانت تیز کر رہا ہے۔
اس نے گھوم کر چھت کی طرف دیکھا، بلب روشن تھا۔
نہیں نہیں چھت سے ابھی تک کرن کا خون ٹپک رہا تھا تو پھر صبح ہو رہی ہے؟ صبح ہے؟
اس کے سارے جسم کی گھبراہٹ نے آنکھوں میں آکر سارے شہر سے سوال کیا۔ ان بھڑکتی لپٹوں لپکتی روشنی کی طرف سے آتا شور اس نے پہلی مرتبہ سنا۔ نعرے، شور، بڑھکیں، اس ہنگامے کی کئی کئی گونجیں جنہیں اس کے کانوں نے دو لفظوں میں ایک کر دیا تھا۔ صبح ہے؟ اس نے کھڑکی سے جھانک کر آسمان کی طرف دیکھا۔
تو یہ لمحہ بھی جل گیا؟
وہ چیخا۔ نیچے بازار میں قہقہے بلندہوئے۔ اس کی نظریں آسمان سے پھسل کر بازار میں آ گئیں۔ بجلی کے کھمبے کے نیچے تین نوجوان کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک کے ہاتھ میں کھمبے کی بیمار روشنی کا عکس چمک رہا تھا۔ پھر یہ عکس بجھ گیا اور اس نے کوئی چیز تہ بند کے ڈب میں اڑس لی۔ تینوں پھر ہنسے۔ کڑکڑکڑ، کمانی کھلی اور دوسرے نے کھمبے کی روشنی کاتیزدھار عکس فضا میں لہرایا، تینوں ہنسے اوربڑھتے ہوئے شور کے رخ بائیں بازار کی طرف مڑ گئے۔ اس نے پھر آسمان کی طرف دیکھا، ایک بہت بڑے شہاب ثاقب کی لکیر آسمان کو کاٹتی ہوئی نگاہوں کی حد بن گئی۔
نہیں سورج تو طلوع نہیں ہو رہا وہ تو ابھی میرے سامنے ڈوبا ہے اور روشنی مشرق میں ہے باقی آسمان سیاہ ہے نگاہوں کی حد پر اور بھی تو نصف دائرے کی شکل میں روشنیاں بھڑک رہی ہیں جو شاید اندھیروں کی اپنی کرنیں ہیں نگاہوں کی سرحدپر شور ہے لمحے ماتم کناں؟ یہ اندھیرے کی روشنی صرف موقع ہے نادر موقع نادر لمحہ اور یہ لمحہ اس وقت تک نہیں بیت سکتا جب تک میں اس کمرے کی رگوں میں بہتی روشنی نہ بجھادوں یہ روشنی مجھ سے نہیں، تم سے ہے ان کی کرنوں کی انیاں زہر میں بجھی ہیں اور یہ لمحہ تریاق ہے میں اس کا بڑی مدت سے منتظر تھا اب میں یہ موقع نہیں جانے دوں گا۔
’’آج تم زندہ بچ کرنہیں جاؤگے۔‘‘وہ گھوم کر چیخا۔ اس کی نظریں بڑی تیزی سے دیواروں پر لگی تصویروں سے پھسلتی دروازے کے ساتھ پڑی ایزل کے پاس آکر رک گئیں۔ ’’سنتے ہو؟‘‘ اس نے غیرمکمل قد آدم تصویر کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا، ’’لیکن تم ابھی تک آئے کیوں نہیں؟‘‘ تصویر کی غیر مکمل مسکراہٹ مکمل ہو گئی۔ ’’تمہارے سرپر موت منڈلا رہی ہے اور تم مسکرا رہے ہو؟‘‘ اس نے بڑے غصے میں پلیٹ نائف اٹھا لیا۔ ’’میں تمہاری مسکراہٹ بہادوں گا، قتل کردوں گا۔‘‘ وہ پاگلوں کی طرح چاقو لے کر تصویر کی طرف بڑھا۔
اس کا ہاتھ تصویر کے بالکل قریب جاکے رک گیا۔ ’’اگرچہ تم مکمل ہو، مگر تمہارا عکس نامکمل ہے۔ جب تک کوئی چیز مکمل نہ ہو اسے ختم نہیں ہونا چاہیے۔ میں تمہارا اور تمہارے عکس کا اکٹھا خون کروں گا۔‘‘
اس نے سگریٹ سلگا کر پلیٹ اٹھا لیا اور چاقو سے کینوس پر رنگ پھیلانے لگا۔ اس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے اور سگریٹ کا دھواں سیاہ رنگ میں گھل کر اس کے گرد پھیلنے لگا۔ اس کا چاقو والا ہاتھ بڑی تیزی سے کینوس پر حرکت کر رہا تھا۔
پھیلتا ہوا سیاہ دھواں سمٹنے لگا، سمٹتا رہا، دائرہ تنگ ہوتا رہا۔ پھر بڑے بڑے سیاہ ہاتھوں نے جیسے اسے کندھے پر بٹھا لیا۔
میں کہیں نہیں جانا چاہتا میرے پاس وقت نہیں۔
اس نے کلبلاکر پنکھے کی طرف دیکھا، پنکھے کا ریگولیٹر کافی ہٹ کر تھا۔ اس نے پنکھا تیز کرنے کے لیے اٹھنا چاہا۔
اس کی رفتار کم ہے لیکن وقت بھی کم ہے میں پسینہ پسینہ ہو رہا ہوں ہونے دو اگر میں اٹھا تو لمحہ پگھل جائےگا بہہ جائےگا۔
اس کے پیروں میں اب دھوئیں کے تسمے کی کئی گرہیں پڑ گئیں۔ اس نے تنگ آکر سگریٹ منہ سے نکال لیا۔ دھوئیں کی شکلیں مسکرادیں۔ اس نے سگریٹ کو دیکھا، ’’تم میرے نہیں ہو۔‘‘ اس نے سگریٹ سے تصویر کی طرف اشارہ کیا۔ ’’تم اس کے ہو، تم اور تم اور تم بھی۔‘‘ اس نے سگریٹ کو پیر سے مسلتے ہوئے دھوئیں سے کہا، ’’تم سب سازشی ہو۔ تم چاہتے ہو کہ میرے ہاتھ بندھے رہیں؟‘‘
اس کی رگوں میں بہتے دھوئیں کی سیاہی پھیکی پڑنے لگی۔
آج میں اس سازش کو ختم کر دوں گا اپنے جسم میں بہتے زہریلے خون کو بدل دوں گا۔
اس نے سگریٹ کا پیکٹ اٹھاکر کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔
تم ابھی تک آئے کیوں نہیں؟ تمہارے آنے کے بعد میں تمہاری ایک ایک چیز کو پھینک دوں گا یہ جگہ چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔
وہ دراز سے پستول نکال کر دیکھنے لگا پستول اس کے ہاتھ میں کانپ رہا تھا۔ آج میرا ہاتھ کیوں کانپ رہا ہے؟ آج چلی ہوئی گولیوں کی بازگشت تو زنجیروں میں گونجنے سے پہلے ہی دم توڑ جائےگی اب اسے میرے ہاتھ سے نہیں پھسلنا چاہیے میں اتنا مضطرب کیوں ہوں؟ میری یہی حالت رہی تو نشانہ کہیں چوک نہ جائے اور میں پھر اندھیرے کی نوک پر گھومنے لگوں نہیں مجھے خود پر پوری طرح قابو پانا چاہیے وہ آتا ہی ہوگا۔
اس نے پستول میز پر رکھ دیا۔
دور گولیوں کی آواز۔
اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا، افق پر نئے اندھیرے جل رہے تھے۔ اس کی کنپٹیاں بجنے لگیں۔
گوروں کی غلامی سے نجات پانے کا عمل شروع ہو چکا ہے اور میرے ہم وطن دیوانگی میں ایک دوسرے کو ایک دوسرے کے وجود ہی سے آزاد کر رہے ہیں نفرت کو نفرت سے ذبح کر رہے ہیں بلیدان جھٹکا گھروں کو جلایا جا رہا ہے لیکن مجھے کیا! آج ہر انسان کا اپنا ہی قانون ہے اور ہر کوئی اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے تو میں بھی کیوں نہ اٹھاؤں میں آج یہ موقع نہیں جانے دوں گا۔
اس نے پھر پستول اٹھا لیا اور رخ تصویر کی طرف کر دیا۔ اس کا ہاتھ پھر کانپنے لگا۔ میں ابھی تک بوکھلایا ہوا ہوں؟ مجھے پرسکون ہونا چاہیے ورنہ۔۔۔ ورنہ۔۔۔ اس نے پستول میز پر رکھ دیا اور پیالی میں تھرموس سے چائے الٹنے لگا۔
جب وہ آئےگا تو میں مسکراکے اس کاسواگت کروں گا وہ مجھے کیفے ڈی سوزا میں چلنے کے لیے کہےگا تو میں ہنس کر کہوں گا اتنی جلدی بھی کیا ہے ابھی چلتے ہیں کافی ہی پینا ہے نا پھر میں بڑی ترکیب سے اس کے سامنے بہانے بہانے پچھلے سارے واقعات دہراؤں گا اس کے ساتھ ہی اپنی دوستی کا ذکر کروں گا۔ آہستہ آہستہ میں میٹھی میٹھی باتوں میں غصہ گھولنا شروع کر دوں گا جس طرح اب چائے کی پیالی میں شکر گھول رہا ہوں میں اس طرح کلائمکس کو بلڈ کردوں گا کہ یہ غصے میں کھولنے لگےگا تلخی اتنی بڑھےگی کہ میں اسے گولی ماردوں گا اور ہر قسم کی قید سے آزاد ہو جاؤں گا۔ میں تصویر میں دیکھتا ہوں اور مسکراتا ہوں کہ ابھی جب تم آؤ گے تو نہیں رہوگے، ہوں اب میں نے خود پر کافی قابو پا لیا ہے۔
چائے کی پیالی اٹھاتے ہوئے اس کی نگاہیں پیالی میں چائے کے بھنور میں آ گئیں۔ اس نے دیکھا کہ بھنور میں لڑکی کی پرچھائیں گردش میں ہے، ’’کیا مصیبت ہے، میرا تصور مجھے لے ڈوبےگا۔‘‘
تمہارا تصور تمہیں لے ڈوبےگا، اس کے کانوں میں کسی نے سرگوشی کی۔
خواہ مخواہ ہر وقت نہ سوچا کرو، اس کے دوست کی آواز آئی۔
تم بہت Imaginative ہے، کیفے والا ڈی سوزا مسکرایا۔
تمہارا تصور تمہیں لے ڈوبےگا، لڑکی نے بھنور سے کہا۔
لے۔۔۔ ڈوبے۔۔۔ گا۔۔۔ لے۔ ڈ۔۔۔ و۔۔۔ بے۔۔۔ گا، ا، ا، ا۔ اس کے کانوں میں بازگشت تھی۔
تم کہاں ہو؟ وہ بھنور کے کنارے چیخا۔
وہ تم سے پہلے پاتال میں اتر گئی ہے۔ بھنور میں اس کے ہونٹوں نے اس سے کہا۔
اس کے ساتھ؟ میں تو یہاں ہوں۔
تمہارے دوست کے سرپر سانپ کا تاج ہے اور لڑکی کے سینے پر بائیں جانب ڈنک کے دو نشان دل سے سنہرا خون بہہ رہا ہے اور اس کی آنکھوں میں زہر بجھا خمار ہے۔
کہاں ہیں دونوں؟
پاتال میں۔ تاج کے سانپ کو دودھ چاہیے۔
میں اس سانپ کو کچل دوں گا۔
اس نے بھنور میں چھلانگ لگا دی۔
چھنن، ننن، نن۔ پیالی فرش پر گرکے ٹوٹ گئی۔ چھنن، نن، نن۔ زنجیروں کاشور اس کے دماغ میں گونجا۔ وہ بے قراری سے ٹہلنے لگا۔ اس کی نگاہیں دیوار پر جنگل کی تصویر میں بھٹک رہی تھیں۔۔۔ وہ اور اس کا دوست اور وہ لڑکی جنگل میں کھڑے تھے، چھن چھن۔
اس زنجیر کو اتار دو، اس نے لڑکی کے پیروں کی طرف اشارہ کیا۔
اس کا دوست اپنے تاج کے سانپ سے کھیلتا ہوا مسکرا دیا۔
یہ سونے کی ہے سنو یہ تمہارے پیچھے پیچھے آئےگی اگر تم نے مڑ کے اسے دیکھ لیا تو تم اسے کبھی نہ پاؤگے۔
اس نے ہمیشہ مڑ کے پیچھے دیکھا تھا لیکن وہاں سب کچھ ہوتا تھا۔ ایک ایک نقش ایک ایک آواز، اب زنجیر کی آواز آتے آتے، رفتہ رفتہ بالکل معدوم ہو گئی تھی۔ اس مرتبہ جانے کیوں اس نے گھبراکے مڑ کر دیکھا تو لڑکی وہاں نہیں تھی۔ خلا تھا، کوئی راستہ نہیں تھا۔ وہ جنگل میں تھا اور ہر قدم راستہ تھا۔ جنگل اور خلا کے درمیان سونے کی زنجیر پڑی تھی۔
’’تم ایک فریبی دوست ہو، میں، میں، میں تمہیں۔۔۔‘‘
وہ زنجیر کو تھامے جنگل کے زنداں میں پاگلوں کی طرح گھومنے لگا۔ ہر قدم راہ پر تھا اور ہر راہ نئی سلاخ کی طرف جاتی تھی۔
’’میں تمہیں فنا کر دوں گا۔‘‘وہ دہاڑا۔ ’’میں تمہیں دانتوں میں پکڑکے جنگل میں گھسیٹتا پھروں گا اور جب تم سسک سسک کر مر جاؤگے تو میں تمہیں چیر پھاڑ کر کھا جاؤں گا۔‘‘
اس کی ہنسی سے سارا جنگل گونج اٹھا۔ اس کی انگلیاں زنجیر کو بری طرح ہاتھوں میں مسلنے لگیں۔ اس کی نگاہیں سارے جنگل میں گھومتی میز پر پڑے پستول پر جا پڑیں۔ اس نے ایزل پر رکھی تصویر کو دیکھا اور پھر اپنے ہاتھ کو، سرخ رنگ کی ٹیوب ہاتھ میں بری طرح کچل گئی تھی۔ ہوہ مسکرا دیا۔
’’آج میں تمہاری موت کے بعد بھی نہیں مروں گا۔ آج اس قسم کا کوئی قانون نہیں ہے کہ انسان دوسرے کو مارنے کے بعد زندہ نہ رہ سکے۔ آج میں بھی آزاد ہو جاؤں گا۔‘‘
’’تم میں اتنی ہمت ہے؟ تم مجھے قتل کر سکتے ہو؟‘‘
اس نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا پھر تصویر کو۔ ’’کیوں نہیں۔ میں اس وقت بہت پر سکون ہوں۔‘‘
’’میری موت کے بعد اپنے دنو ں کی قیمت کہاں سے دوگے؟‘‘
’’آج کے بعد میں نیا انسان ہوں گا۔‘‘
’’پیچھے مڑ کر دیکھنے پر تمہیں صرف زنجیر ملےگی۔‘‘
’’بکو نہیں۔ میں پیچھے مڑ کر دیکھوں گا ہی نہیں۔‘‘
تصویر ہنسی۔
’’میں تمہیں مسخ کر سکتا ہوں۔‘‘
وہ چنگھاڑا اور سرخ رنگ کی مسلی ہوئی ٹیوب سے بھرا ہاتھ تصویر پرپھیر دیا۔ تصویر لہو کی طرح ہو گئی۔
’’لیکن میں مٹا نہیں۔‘‘
کھڑکی سے ایک بار اور گولیوں کی بوچھاڑ کی آواز آئی۔ اس نے لپک کر میز پر پڑا پستول اٹھایا۔
’’یہ دیکھو۔ میرا ہاتھ کانپ نہیں رہا۔ میری اتنی مضبوط گرفت تو کبھی پینٹنگ کے برش پر نہیں ہوئی اور دیکھو میں ہنس بھی رہاہوں۔ اب وقت میری مٹھی میں ہے۔ اب تم نہیں رہوگے، نہیں رہو گے۔‘‘
وہ پستول کا رخ اس کی طرف کرکے دائیں آنکھ کی سطح پر لایا۔
’’کیا تنہا ہنستے رہتے ہو تمہیں خود کلامی کی بہت بری عادت پڑ گئی ہے۔‘‘
وہ اور بھی زور سے ہنسا۔
’’چلو چل کر کافی پیئں۔ ڈی سوزا۔۔۔ ارے، ارے کیا کر رہے ہو۔۔۔ یہ پستول۔۔۔ کیا کر رہے ہو۔۔۔ اس کارخ۔۔۔ کیا۔۔۔‘‘
’’تم سے آزادی حاصل کر رہا ہوں۔‘‘
اس کے قہقہے پستول سے نکلتی گولیوں کی آواز پر چھا گئے۔
’’مے۔۔۔ رے۔۔۔ دو۔۔۔ ست۔‘‘
آواز پھیلتے ہی سرخ رنگ میں ڈوب گئی۔
اس نے آنکھیں میچ کر پستول جیسے اس کے سینے پر پھینک دیا اور پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر کمرے سے نکل کر بازار میں آ گیا۔
آج کافی کامزہ نیا ہوگا۔
وہ کیفے ڈی سوزا کی طرف چلنے لگا۔
میں نے اب جنم لیا ہے۔
اس نے بازار سے اپنے کمرے پر آخری نگاہ ڈالی۔
’’اگر یہ لمحہ بھی گزر جاتا تو میں اس بطن میں ہمیشہ کے لیے قید ہو جاتا۔ اب میری زندگی کا ہر پل میرا اپنا ہے۔ اب کسی پل پر اس کی مہر نہیں ہوگی۔ اب میں سر بلند کرکے چل سکتا ہوں۔ پہلے میری گردن پر اس زنجیر کا بوجھ تھا اور اب۔۔۔‘‘
وہ اور بھی گردن اکڑاکر مسکرایا۔
اگر میں اسی روز اسے قتل کر دیتا جس روز میری گردن جھکی تھی تو میں آج سے بہت پہلے آزاد ہو گیا ہوتا لیکن تب۔۔۔ تب کون کہہ سکتا ہے کہ میرا ہاتھ نہ کانپتا بعد میں میرے پیروں میں بیڑیاں نہ ہوتیں اور مجھے بغاوت کے الزام میں۔۔۔ آج تو میرا ہاتھ بالکل نہیں کانپا اور میں بڑی آزادی سے گھوم رہا ہوں۔
اس نے بجلی کے کھمبے کے نیچے سے گزرتے ہوئے اپنا ہاتھ دیکھا۔ سرخ رنگ اس کے ہاتھ میں خشک سا ہوتا چپچپا ہو رہا تھا اور ہاتھ بری طرح کانپ رہا تھا۔ اس نے پریشان ہوکر مڑکے دیکھا۔ کھمبوں پر روشن بلبوں کی زنجیر اس کے گھر تک خلا کو چیرتی چلی گئی تھی۔ اس نے پھر اپنے سرخی میں ڈوبے ہاتھ کو دیکھا اور اسے فوراً دوسرے ہاتھ سے پکڑ لیا۔
یہ کم بخت اب بھی کانپے جا رہا ہے؟ میرا نشانہ! وہ مرا بھی یا نہیں؟ اسے مرجانا چاہیے وہ مر گیا ہوگا لیکن میرا ہاتھ؟ مجھے عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے تھا کیا معلوم اسے گولی لگی بھی یا نہیں۔
’’لیکن میں مرا نہیں۔‘‘ اس کی آنکھوں میں تصویر کھلکھلا دی۔
لیکن فرش تو سرخ تھا اور میرا ہاتھ؟ بھی سرخ۔ نہیں مجھے چاہیے تھا کہ پلان کے مطابق مسکراکے اس کا استقبال کرتا جب وہ مجھے کیفے کو چلنے کے لیے کہتا تو میں اسے سمجھاتا کہ اتنی جلدی بھی کیا ہے کافی ہی پینا ہے نا؟ پھر میں باتوں باتوں میں اسے پاگل کر دیتا خود پاگل ہو جاتا پھر پورے اطمینان اور اعتماد کے ساتھ اسے گولی مار دیتا لیکن میں تو اس سارے عمل سے پہلے ہی پاگل ہو گیا تھا مجھے یاد ہے اس کے سیڑھیاں چڑھنے کی آواز آئی تھی جو کمرے میں آتے ہی بند ہوگئی تھی ہاں ہاں، وہ آیا تھا یقیناً آیا تھا۔
اس کے ذہن میں قدموں کی آواز گونجنے لگی۔ سنسان بازار میں اس کے اپنے بوٹ چیخ رہے تھے۔ کرفیو کا وقت ہو رہا تھا اور بازار وقت سے پہلے ہی ویران ہو گیا تھا اب وہاں بندہ تھا نہ پرندہ۔
ہاں وہ آیا تھا ہو سکتا ہے وہ میرے ہاتھ میں پستول دیکھ کر تصویر کی اوٹ میں ہو گیا ہو۔۔۔ اور۔۔۔ اور اب۔۔۔ اب۔۔۔ لیکن میں نے خود اپنی گولیوں سے اس کے جسم کو چھدتا دیکھا ہے پھر بھی۔ ہو سکتا ہے۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ وہ تصویر کے پیچھے چھپ گیا ہو اور اب۔۔۔ بوٹوں کی آواز اس کے دماغ پر برسنے لگی۔ اس نے کنپٹیاں دباکر آنکھیں بند کرلیں اور پھر چلتے ہوئے ہی اپنے پیروں کو دیکھا۔
نہیں میرے بوٹوں کی آواز اتنی نہیں ہو سکتی وہ میرا پیچھا کر رہا ہے تصویر کے پیچھے سے نکل کر۔۔۔ وہ مجھے پکڑ لےگا اور پھر اور پھر ساری عمر۔۔۔
اس کے قدم تیز ہو گئے، ہرمکان کے بند دروازوں سے چرچراتے ٹک ٹک کرتے بوٹ اترنے لگے۔
دوڑو۔۔۔ پکڑو۔۔۔ قاتل کو پکڑو۔۔۔ بھاگنے نہ پائے۔
قدموں کی آواز اور تیز اور تیز۔۔۔ اور قریب اور قریب۔ دوسرے کھمبے سے گزرتے ہوئے ایک سایہ سا اس کے پیچھے سے نکل کر اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
میں نے، میں نے کچھ نہیں کیا۔ مجھے نہ پکڑو۔ میں نے قتل نہیں کیا۔ میرا ہاتھ تو کانپ گیا تھا۔ لمحہ تو میرے ہاتھ سے پھسل گیا ہے۔ میں، تم، میں۔
اس نے گھبراہٹ میں چلتے چلتے گھوم کر پیچھے دیکھا۔ سایہ اس کے ساتھ چند قدم چل کر آگے بڑھ گیا تھا۔ پیچھے کچھ نہیں تھا۔ زنجیر بھی نہیں۔ بس سامنے دور تک کھمبوں کی قطار اونگھ رہی تھی۔ مکانوں میں سناٹا تھا۔ تاریکی تھی۔ بلیک آؤٹ نہ ہونے کے باوجود گھروں میں جیسے بلیک آؤٹ تھا۔ بازار میں چپ کا راج تھا جسے اس کے چرچراتے ٹک ٹک کرتے بوٹ مرتعش کر دیتے تھے اور یا پھر کبھی کبھی گولی چلنے کی آواز یا دور سے آتے نعرے ہلا دیتے تھے، نیم جان شور، فائر بریگیڈ کی دم گھٹی گھنٹیاں بہت دور۔ نہ جانے محلے کے کتے بھی کہاں غائب ہو گئے تھے۔
وہ لمحہ بھر کے لیے رک کر ہمہ تن گوش ہو گیا اور نظریں کسی بھی جاندار چیز کی تلاش میں تھڑوں تک کے نیچے بھٹک کر ناکام لوٹ آئیں۔
تم نہیں ہو ورنہ یقیناً میرا تعاقب کرتے گولیاں تمہیں چیر کر تمہاری زندگی لے گئیں وگرنہ تم میں تھوڑی سی جان بھی ہوتی تو چیخ پکار ضرور کرتے پھر میں نے تمہیں خود گرتے دیکھا تھا؟ واقعی؟ ہاں دیکھا تھا میں بھی خواہ مخواہ تصور کے بہاؤ میں آ گیا اور آج تو میرا ہاتھ کانپ ہی نہیں سکتا تھا آج تو کسی کا بھی ہاتھ نہیں کانپ سکتا۔
وہ مسکراتا ہوا مکانوں پر نظریں دوڑاتا پھر سے چلنے لگا۔
لوگ بھی تو گھروں میں نہیں ہیں ورنہ کسی نہ کسی روزن ہی سے سہی روشنی ضرور جھلکتی یہ سب بھی موقع سے فائدہ اٹھانے گئے ہیں اپنے آپ کو اپنے آپ سے آزاد کرنے گئے ہیں اپنے اپنے ہتھیاروں کی پیاس بجھانے گئے ہیں کتے بلیوں کو بھی پتا چل گیا ہے کہ آج قانون نفرتوں میں تقسیم ہو گیا ہے محبتوں سے انصاف سے آزاد ہو گیا ہے قانون اسی لیے تو میں اس لمحے اتنا پراعتماد تھا میں نے تمہارے خون میں تمہاری آواز غرغراتی سنی تھی مجھے یاد ہے تصویر نے کہا تھا میں مٹا نہیں اور میں نے تم دونوں کو اکٹھا ہی مٹا دیا تھا پستول کی نالی میں اب بھی بارود کی بو ہوگی وہ میرا پستول نہیں ہے یقین جانو میں نے تم کو قتل نہیں کیا تم نے خود اپنی جان لی ہے یا پھر تمہیں وہ لوگ مار گئے ہوں گے جو اندھیروں کی لو کو اونچا کر رہے ہیں میں نے پستول کا گھوڑا نہیں دبایا تھا میں نے تو صرف ریت گھڑی کے درمیانی سوراخ پر انگلی رکھی تھی وقت کو خاموش کیا تھا۔ جانے گھڑی کا شیشہ کس نے توڑا ہے۔ میں نے تو۔۔۔ تم قتل ہوگئے چچ چچ چچ میں نے تو صرف۔۔۔ ہاں البتہ میں نے پگھلتے لمحوں کی موم کو جامد ضرور کیا تھا۔ ہوں! ہوا کی گرہ بھی کھل گئی! میں بھی آزاد ہو گیا۔
اس کے ہونٹ عیارانہ مسکراہٹ میں پھیل گئے۔ وہ کیفے کا دروازہ کھول کر اندر آ گیا۔ کیفے کا مالک نیم روشنی میں دروازے کے ساتھ کاؤنٹر پر بیٹھا کیش گن رہا تھا۔
اس کی آہٹ سے یک دم چونک کر ڈی سوزا نے نوٹ دراز میں رکھ کر فوراً چابی گھما دی۔ پھر اسے پہچان کر اسے اطمینان ہو گیا۔
’’ہیلو۔‘‘
’’ہیلو۔‘‘
’’اومین! تم ادھر کیا کرتا؟ کرفیو کا سائرن بجنے والا ہائے۔‘‘
’’کافی پیوں گا۔‘‘ وہ مسکرایا۔
ڈی سوزا اس سے ہاتھ ملاکر اس کے لیے سامنے کی میز کے اوپر والا پنکھا چلانے لگا کہ اس کی نظریں اپنے ہاتھ پر پڑ گئیں۔ اس کے حلق سے چیخ نکلتی نکلتی رہ گئی۔ اس نے فوراً اس کے ہاتھ کو دیکھا پھر اپنے ہاتھ کو۔
’’بلڈ! اوہ بلڈی مین۔ تم بھی آج۔۔۔ یو ٹو؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ نو۔۔۔ نو۔۔۔ نہیں۔ یہ تو۔۔۔‘‘ وہ گھبرا گیا۔
’’گوش۔ یو بلڈی پینٹر۔ پینٹنگ کے بعد ہاتھ تو واش کرا کرو۔‘‘
’’شکریہ‘‘ اس نے رومال سے ماتھے کا پسینہ پونچھ کر اپنی سرخ، پپڑی جمتی ہتھیلی کو دیکھتے ہوئے مسکرانے کی کوشش کی۔ ’’کافی پلیز۔‘‘
’’کرفیو لگنے والا ہے۔ ابھی سائرن ہو جائےگا۔ تم آج بھی یہیں سونے کو مانگتا؟‘‘
’’یو آر سو سویٹ۔‘‘ وہ سنک پر جاکر ہاتھ دھونے لگا۔
’’یو بلڈی پینٹر!‘‘
وہ دروازے کے ساتھ والی میز پر بیٹھ گیا۔
’’تمہیں ڈر نہیں لگتا؟‘‘ ڈی سوزا نے اس کے سامنے کافی کا سامان رکھتے ہوئے کہا۔ ’’تمہارا کوئی اَینی می نا ہیں؟ کوئی تمہیں مرڈر کر دے تو؟‘‘
’’نو۔۔۔ نہیں۔ اب میرا کوئی دشمن نہیں ہے۔‘‘ وہ مسکرایا۔
’’ارے وہ تمہارا فرینڈ کدھر ہوتا؟ ادھر نظر نہیں آیا۔‘‘
’’میرا دوست!‘‘ وہ کافی کی پیالی اٹھاتا ہوا ہنسا۔ ’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔‘‘
اس کی نظریں دروازے سے باہر جم گئیں اور اس کے ہاتھ سے پیالی چھوٹ کر چھنا کے سے ٹوٹ گئی۔۔۔ اس کا دوست سامنے سڑک پر کھڑا مسکرا رہا تھا۔
وہ ہڑ بڑا کر اٹھ کھڑا ہوا، تیزی سے کیفے سے باہر نکلا اور سڑک پر آ گیا۔ ڈی سوزا کیفے کے دروازے سے چیخا۔
’’اومین۔۔۔ سائرن۔۔۔ سائرن۔ کرفیو۔ کم ان، کم ان۔ تم کیا کرتا۔‘‘
وہ اس جگہ آکے کھڑا ہو گیا جہاں اس کا دوست مسکرایا تھا۔
وہاں کوئی نہیں تھا۔ سڑک سنسان تھی۔ دو رویہ اونگھتی روشنی والے بلب دور تک اندھیرے کو چیرتے چلے گئے تھے اور سائرن کی دل دہلا دینے والی آواز اور یا اب دروازے سے باہر نکل کر چلاتے ڈی سوزا کے لفظ، اس نے چاروں طرف دیکھا، ہر طرف اندھیرے میں بس ایک سایہ تحلیل ہوتا نظر آتا تھا۔
’’سا۔۔۔ سائرن۔۔۔ سائرن بجتا بلڈی فول۔ کم اِن۔ برٹش گولی مارتے وقت کچھ نہیں دیکھتا۔‘‘
موڑ مڑ کر سامنے سے آتی ہوئی روشنی نے یکلخت اسے اندھا کردیا۔ ہارن، سائرن، ہارن، سائرن اور ڈی سوزا اسے بازو سے پکڑ کر عین جیپ کے سامنے سے گھسیٹ کر کیفے کے اندر لے آیا اور دروازے کی چٹخنی چڑھا دی۔
’’میڈ مین!‘‘
اس نے ہاتھوں سے آنکھیں مل کر اپنے گرد و پیش دیکھا، ڈی سوزا اپنا آدھا منہ کھولے حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا پھر میز پر ٹوٹی ہوئی پیالی کو اس کی نظروں نے کھنگالا، پھر میز کے کنارے پر آکر اس کی نظریں اٹک گئیں۔
میز کے کنارے سے پگھلی موم کے لمحے بڑی تیزی سے ٹپک رہے تھے۔