ہوا بے خبر ہے ۔۔۔ اصغر ندیم سیـد
ہوا بے خبر ہے
(آصغر ندیم سیـد )
ہوا بے خبر ہے
یہاں جو ہوا ہے
یہ اپنے تسلسل میں چلتی ہے
دل میں اترتی ہے
اور بے خبر ہے
کتابوں کے صفحے الٹی ہے
خالی مکانوں سے نفرت بھری نیتوں سے گزرتی ہے
افسردہ بچوں کی خواہش سے، سرما کے بادل سے
بے مہر باتوں سے ہو کر گزرتی ہے
اور بے خبر ہے
ہوا میرے کمرے سے اخبار کی سرخیوں تک
ہر اک شئے کو چھو کر گزرتی ہے
اور بے خبر ہے
یہاں کیا ہوا ہے ؟
کئی دن سے آنکھوں کی سونی گلی میں کوئی چاند ابھرا نہیں ہے
یہاں میرے نغموں کی بارش میں کوئی پرندہ سفر کے ارادے سے نکلا نہیں ہے
یہاں کیا ہوا ہے ؟
ہوا بے خبر ہے۔
Facebook Comments Box