ایک نظم دیوتا کے لیے ۔۔۔ عاصم جی حسین
ایک نظم دیوتا کے لیے
عاصم جی حسین
ہم نے بیچ دیا وہ آسمان
جہاں موسم گزرتے تھے
ہمیں خوابوں نے گوارہ کیا
بارہ دروازے اور چاروں برج
ہمیں سانسوں کا مول چکانا مشکل تھا
اب وقت نہیں جاتا
زمین سرکتی ہے تو سورج اپنے اظہار کا وعدہ پورا کرتا ہے
بیت جانے کی گواہی ہیں
گزر جانے کی داستاں
ایک جنم کا قصہ کہیں
تو ایک نظم مکمل ہوتی ہے
موٹر سائیکل کے انڈیکیٹر سڑک کا منہ دیکھتے ہوں
تو محبت کی جیب خالی ہو جاتی ہے
سفر کو سانس لینا دوبھر ہو جاتا ہے
انسان کے خدو خال کریہہ نظر آتے ہیں
Crap کے تخلص سے شاعری کرنا پڑتی ہے
میری نظمیں آنکھیں زمین میں دفن کر کے پڑھو
تو جانوگے
خدا کو پا لینے کی مٹھاس نے مجھے کڑوا کر دیا
اب میں چاکلیٹ میں زندہ کسی کی گولڈن بائیٹ کے انتظار میں ہوں
ہم تینوں point Nemo پہ منتظر ہیں
سانس کی آس کے
جو ہم تک پہنچے
ستاروں کے خواب ادھورے رہ گئے تھے
اب میری تہہ میں
سیٹلائٹس کا قبرستان سرسراتا پھرتا ہے
میں روشنی کا سنگ میل ہوں
اپنی آواز کا سودا کر کے
گونگے چہروں کو خدوخال دینے کے جرم میں شامل
ڈوبے بحری جہازوں کی روحیں
مجھے عاصم کہہ کے بین کرتی ہیں