
عاصم جی حسین۔ وجود کے بکھرتے رنگ ۔۔۔ راشد جاوید احمد
عاصم جی حسین : وجود کے بکھرتے رنگ
تاثرات :: راشد جاوید احمد
عاصم جی حسین سے میرا تعارف انجلا ہمیش کے آن لائن فورم “چراغ ہمیش” کے ذریعے ہوا، اور ان کی نظموں نے مجھے فوراً اپنی گرفت میں لے لیا۔ تب سے میں ان کی شاعری کا مداح ہوں۔ ان کی نظموں میں وہ کشش ہے جو ذہن کو اپنی گرفت میں لے کر گہرے تفکر پر مجبور کر دیتی ہے۔ آج میرے سامنے ان کی چھ نظمیں موجود ہیں، جو اس مضمون کے آخر میں درج ہیں۔ ان نظموں پر اپنے تاثرات رقم کرنا میرے لیے ایک خوشگوار تجربہ ہے۔
عاصم کی شاعری روایت سے انحراف، اسلوب کی تجدید اور جدید فکری اثرات کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے۔ ان کی نظمیں ایک ایسی دنیا کی عکاسی کرتی ہیں جہاں حقیقت، سراب، خواب، روشنی اور اندھیرا آپس میں اس طرح مدغم ہو جاتے ہیں کہ ان میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ روایتی بیانیے، جذباتی وابستگی اور سادہ علامتی اسلوب کو توڑ کر ایک پیچیدہ اور فلسفیانہ اظہار کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ ان کی شاعری میں غیر متوقع تشبیہات، تجریدی خیالات، وجودیاتی سوالات اور انحرافی اندازِ بیاں نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کی نظموں میں انسانی جدوجہد، زوال، بے معنویت اور تلخ حقیقتوں کا بیان ایک نئے لسانی سانچے میں ڈھل کر سامنے آتا ہے۔
ما بعد جدید شاعری کے بنیادی عناصر، جیسے متن کی غیر مرکزیت، معانی کی شکست و ریخت، حقیقت اور سراب کے مابین ابہام، اور قاری کی شمولیت کے رجحان، عاصم کی نظموں میں بخوبی جھلکتے ہیں۔ وہ قاری کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ خود نظم کے معانی تلاش کرے، متن کے تضادات کو محسوس کرے اور حقیقت کے روایتی تصورات کو چیلنج کرے۔ ان کی یہ چھ نظمیں ان کے فکری زاویے، اسلوبیاتی انفرادیت، نفسیاتی پیچیدگی اور تخلیقی مزاحمت کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں۔
عاصم کی شاعری داخلی کرب اور سماجی اضطراب کا امتزاج ہے۔ ان کی نظموں میں شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ، داخلی کشمکش اور وجودیاتی بحران کی جھلک نمایاں ہے۔ ان کے کردار مایوسی، بے بسی اور ناامیدی کے سایے میں زندگی بسر کرتے ہیں، جبکہ سماجی ناانصافیوں کے خلاف ایک گہری بے چینی بھی نظموں کے بطن میں پوشیدہ ہے، جو شاعر کی داخلی اور خارجی دنیا کے تضادات کو اجاگر کرتی ہے۔
ان کی نظم “ایک جھوٹے شاعر کی آخری نظم” میں سماجی اور سیاسی نظام پر گہری تنقید کی گئی ہے۔ وہ شہیدوں کے استحصال، کھوکھلے نعروں کی فروخت اور معاشرتی بے حسی کو اپنے مخصوص انداز میں بیان کرتے ہیں۔ یہ نظم واضح کرتی ہے کہ شاعر ایک ایسے سماج میں جی رہا ہے جہاں حقیقت اور جھوٹ میں فرق کرنا ممکن نہیں رہا۔
اسی طرح “وہ نہیں آیا” میں زندگی کی بے معنویت اور حقیقت کی دھندلی سرحدیں نمایاں ہیں۔ “ایک نظم دو سال پرانی” اور “تیسرے کا دکھ” جیسی تخلیقات میں عاصم خود کو ایک اجنبی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ “تم” میں شاعر کا کردار اپنی شناخت کھوتے کھوتے ایک بے نام ہستی میں ڈھل جاتا ہے، جبکہ “ہم لکھ سکتے ہیں” میں وہ ادب کو سماجی اور وجودی مسائل کے اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ابلیس کے خلاف نثری نظموں کی بات کر کے وہ ایک مخصوص قسم کی سماجی مزاحمت کا عندیہ دیتے ہیں، جو ان کی شاعری کی فکری گہرائی کو مزید نمایاں کرتی ہے۔
اگر اسلوب اور فکر کے تناظر میں دیکھا جائے تو عاصم کے ہاں تاریخی اور سیاسی حوالہ جات نمایاں ہیں۔ وہ اجتماعی شناخت، غلامی کی زنجیروں اور فکری جمود جیسے موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں۔ ان کی نظموں کی زبان بیانیہ اور استعاراتی امتزاج کے ذریعے ایک منفرد جمالیاتی تجربہ تخلیق کرتی ہے۔ عاصم کی شاعری میں علامت نگاری اور تجریدیت کے پس پردہ سماجی زوال اور انسانی بے حسی جیسے گہرے موضوعات پوشیدہ ہیں۔
“ایک جھوٹے شاعر کی آخری نظم” میں “قلعے کی زنجیروں کی تصویریں” ایک طاقتور علامت ہے، جو سماجی غلامی اور استحصال کی نشاندہی کرتی ہے۔ اسی طرح “ہم لکھ سکتے ہیں” میں “موٹی اون کی ٹوپی پہنے کلرک کی کٹی ہوئی انگلیوں کی تیسری سرگزشت” ایک ایسا استعارہ ہے جو مظلوم طبقے کی اذیتوں کو بیان کرتا ہے۔ عاصم عام الفاظ میں گہرے معانی بیان کرنے کا فن جانتے ہیں، تاہم بعض مقامات پر ان کا اسلوب پیچیدہ بھی محسوس ہوتا ہے، جس کی وجہ ان کی شاعری میں فلسفیانہ اور وجودیاتی خیالات کی موجودگی ہے۔
“ایک نظم دو سال پرانی” میں وہ زندگی کے بنیادی سوالات پر غور کرتے ہیں۔ نظم کا یہ مصرع: “زندگی وقت کی ہتھیلی پہ جمی سرسوں” زندگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتا ہے۔
عاصم جی حسین کی یہ چھ نظمیں ان کے فکری زاویے، اسلوب، نفسیات اور مزاحمت کو نمایاں کرتی ہیں۔ یہ نظمیں نہ صرف ان کے داخلی کرب کو آشکار کرتی ہیں بلکہ سماجی، سیاسی اور وجودی مسائل کی پیچیدگیوں پر بھی گہری روشنی ڈالتی ہیں۔ ان کا اسلوب منفرد ہے، جس میں علامتیں، استعارے اور تلخ حقیقتوں کی آمیزش نظر آتی ہے۔ ان کے ہاں تنہائی، مایوسی اور بے چینی جیسے عناصر جابجا بکھرے ہوئے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں ایک خاموش مزاحمت بھی دکھائی دیتی ہے، جو قاری کو سماجی اور وجودی مسائل پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
یہ شاعری ہمیں ایک ایسے ذہن سے روشناس کراتی ہے جو حقیقت کے چہرے پر پڑی دھند کو چیر کر اس کے اصل خد و خال دیکھنے کی سعی کرتا ہے، جو محض لفظوں کی چمک سے آگے جا کر فکر و احساس کے نئے دریچے کھولنے کا ہنر رکھتا ہے۔
عاصم جی حسین کی کچھ نظمیں
1۔
ایک جھوٹے شاعر کی آخری نظم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
“وہ نہیں آیا”
دہلیز پہ پڑی آنکھوں نے
دروازے سے سرگوشی کی
دل نے اہٹ کی تنہائی سے مصافحہ کیا
تصویر نے خاموشی کے رنگ پہنے
درد چپ کی پناہ میں ہوا
دکھ نے کچھ نہ کہنے کا حلف اٹھایا
آنکھوں نے چلتے منظر کو افسردہ ہو جانے کا سندیس بھیجا
“وہ نہیں آیا”
احتجاج سے زندہ لوٹ آنے والے شہیدوں کی جیب میں پڑے نوٹوں پہ
قلعے کی نہیں زنجیروں کی تصویریں چھپی تھیں
اعظم نام کے ہر فرد نے قائد بننے سے انکار کر دیا
ہمارا ملک ایک شاعر کے wet dream کی تعبیر ہے
فروخت شدہ سرخ نعرے میں
سیلن سے لتھڑے ہوئے چکٹ اندھیرے کی بو شامل تھی
ٹکٹکی پہ لگے خوابوں کے جسم
درے کھاتی چیخیں
اور سنگسار ہوتے پتھر
ہم سب ایک دوسرے کے عقیدے سے زنا کرنے کے مجرم ہیں
متروک ریلوے اسٹیشن پہ
“موٹی اون کی ٹوپی پہنے کلرک” کے کان فراسٹ بائیٹ کا شکار ہو گئے
انگلیاں کاٹ دی گئیں
ٹکٹوں کا اجراء بائیو میٹرک سے مشروط کر دیا گیا
مسافروں نے اپنے پاؤں ادھیڑ کے کھڑکیوں سے باہر لٹکا دئیے
سفر ٹرین کے منہ پہ تھوک کے چلا گیا
ٹریک پہ پڑے جسم کے ٹکڑے
ایمبولینس کے انتظار میں بور ہوتے رہے
بھیک مانگتے بچے نے
جس چیز کو ہاتھ لگایا
وہ سونے کی ہو گئ
یہ منظر دیکھ کے منظر حیران رہ گیا
“رات گر” کی انگلیاں میرا سورج بنانا بھول گئ تھیں
اندھیرا میرے قدموں پہ دوسروں کی منزلیں تعمیر کرتا رہا
میں نے کئ بار “2 سے 12″تک پیدل چل کے دیکھا
لیکن کبھی بھی”دوبارہ” خود تک نہیں پہنچا
ضائع ہو جانے سے رائیگاں ہو جانے تک کی داستان
زندگی ہے
مشاعرے کے اختتام پہ
فی شاعر ڈھائی درجن واہ واہ کی اوسط رہی
پردہ گر گیا
اب عاصم کبھی نظم نہیں لکھے گا
2۔
ہم لکھ سکتے ہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہم لکھ سکتے ہیں
Devils workshop
میں
ابلیس کے خلاف نثری نظمیں
رائٹرز بلاک میں ایک پتھرایا ہوا ناول
ایک جھوٹے شاعر کی ایک اور آخری نظم
موٹی اون کی ٹوپی پہنے کلرک کی
کٹی ہوئی انگلیوں کی تیسری سرگزشت
وقت اور کائنات کا تنہا رہ جانے کا سانحہ
اور پھر اس کے خدا ہو جانے کا غم
پا سکتے ہیں بھوک کے ماتھے پہ لکھا نروان
گوتم کی مسکراہٹ میں چھپی مونا لیزا کی خاموشی
تنہائی کی آخری سمت کھوج سکتے ہیں
ہم لکھ سکتے ہیں
بوڑھی عورت اپنا نام بھول جانے کے غم میں روتی رہی
زندہ رہتے چلے جانے کا خوف
اس کی رگوں میں بہتا تھا
جادوگرنی نے دیوی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے
فتح کی تین انگلیاں بلند کیں
میری دسترس کے اشارے نے
ان کے ریزے ہواؤں میں گمشدہ کر دیئے
اب اس کی چیخیں Toledo کی گلیوں میں اپنا سر پیٹتی ہیں
بالآخر ماں کے لیے بس یہی کیا جا سکتا تھا