بغاوت کی آخری سیڑھی پر ٹمٹاتی نظم۔۔۔عاصمہ ظاہر
بغاوت کی آخری سیڑھی پر ٹمٹماتی ایک نظم
عاصمہ طاہر
سفید اور مرمریں گھوڑے پہ سوار
میری جانب رواں دواں میرے شہرزاد اور میں نے
دل کی سلطنتوں کو ملانے کے لیے سب رتوں سے نباہ کر لیا ہے
ہم دو مختلف جزیروں کے باسی ہیں
ہمیں ایک ہونے کا حق ہماری روحوں نے دیا ہے
ہوا کے رتھ پر سوار
میرے حسن دل آرام کی دہلیز چھونے کے لیے
ایک خواب زادہ
میرے تخت دل پر جلوہ افروز ہونے کے لیے بے تاب
ساون کے بادلوں کو چیرتا ہوا
محبت کے سارے موسموں کی خوشبووں میں دھلی ہوئی سانسوں کے لشکر سمیت
آنکھوں کی جھالر میں ٹمٹماتی وحشت میں گھیر لیتا ہے مجھے
تو میں سمٹ جاتی ہوں اپنی ذات کی گپھا میں
مگر ایک غیر محسوس رفتار سے
میری بے لگام خواہش کے دریچے کب وا ہو جاتے ہیں
مجھے پتہ ہی نہیں چلتا
مگر ہم
بغاوت کی آخری سیڑھی پر بغل گیر ہو کر
اس لا تعلق دنیا کی ادھ کھلی کھڑکی میں
کسی کے ہونے کے احساس کو تھپتھپانے کے لیے ہنس پڑتے ہیں
خواہش کا ست رنگا آیئنہ
ہمارے ہاتھوں سے پھسل کرآیئنہ خانہ بن جاتا ہے
اور ہم دو سے کئی ہو جاتے ہیں
صدیوں پہلے ہماری روحوں کا نکاح ہو چکا ہے
ہمیں کسی سرکاری مولوی کی مہر تصدیق کی ضرورت نہیں
اس محبت کی تصدیق
ہمارے دلوں کی ایک ایک دھڑکن پر ثبت ہے
شہر ستم گر کو کیا خبر
محبت میں ڈوبے ہوئے دلوں کی نظر میں
سبز مہندی سے نازک ہتھیلیوں کی لکیروں کو چھپانے کی کوشش
سرخ جوڑے کی جھلملاہٹ اور آرسی مصحف کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔