کسبی ۔۔۔ ایوب خاور
کسبی
( ایوب خاور )
یہ کمرے کا اندھیرا اور گہرا کیوں نہیں ہوتا!
درودیوارسے لٹکی ہوئی یادوں کی جھلمل
اس قدر ہے، آنکھیں مندتی ہی نہیں ہیں، ذہن کی
دہلیز سے لگ کر کھڑی صدیوں کی نیند
بے حیااوربے لباس
ایک کسبی کی طرح
نِت نئے خوابوں کو چولی میں سجائے
دودھ کے جیسی کلائی میں سُبک وعدوں کاکنگن
اورصراحی دار گردن سے لپیٹے سانپ سا کندن
لبِ نم ساز کی پرتوں کے اندر
ایک انجانے،تھکے ہارے تبسم کی ہُمک
ماتھے پہ اک مہتاب، نیلم آرزوکا نقش،کانوں کی لووں میں دعوتی انداز میں لہراتے جھمکے، پاؤں کی ایڑی سے چمٹی
دستکوں پر دستکیں دیتی ہوئی جھانجھر کی جھرجھر اندرآنے
کے لیے بے تاب ہے کب سے
مگردیوارودر
کمرے کی ہر اک چیز
کرسی،میز،بستر،لیمپ ،کاغذ اورقلم
غزلوں کاپائیں باغ اورنظموں کا جنگل اور اس جنگل کے
ہر ایک پیڑ کی شاخوں سے پتوں کی طرح چمٹے ہوئے جگنو اور ان سب جگنوؤں جیسی تری آنکھوں کی گہری ٹمٹماہٹ
ماند پڑتی ہی نہیں،کمرے کا یہ دھندلا اندھیرا اور گہرا کس طرح ہو!اس دھندلکے میں یہ آنکھیں بند کیسے ہوں
یہ کسبی نیند
آخر کس طرح
حیرت لدی پلکوں کے پیچھے پتلیوں کی کھوہ میں جائے گی
اندھیرا جب تلک گہرا نہیں ہوگا
یہ سب منظر،ترے سب عکس جو کمرے کی ہر شے میں مقید ہیں
اگر مدھم نہیں ہوں گے تو اندر کا اندھیرا اورگہرا کس طرح ہوگا
یہ کسبی، رات کے پچھلے پہر
جب ساری دنیا کی تھکی آنکھوں کو اُن کے
حصّے کے کچھ خواب دے کر مجھ تک آتی ہے،
کھڑی رہتی ہے میرے ذہن کی دہلیز پر اور دستکوں
پردستکیں دیتی ہے،آجاؤں۔۔۔میں آجاؤں
مگر کمرے کا یہ دھندلااندھیرا
اورتری آنکھوں کے جگنو۔۔۔
نیند اور حیرت لدی پلکوں کے بیچ
اِک منقش آئینہ خانہ۔۔۔خلا
اے خدا ۔۔۔ !!