غزل ۔۔۔ ایوب خاور
غزل
( ایوب خاور )
کن ہواوں میں رہے کون نگر ٹھہرے ہیں
قافلے کیا سر آغاز سفر ٹھہرے ہیں
جانے کب ہجرہ ء جاں میں تیری خوشبو اترے
ابھی سینے میں ترے ہجر کے ڈر ٹھہرے ہیں
آس ٹھہرے سر دل پھر “ترے پیکر کے خطوط”
مگر اس بار بہ انداز دگر ٹھہرے ہیں
جن کے ساحل ترے آنچل نے کئے تھے آباد
وہ سمندر پس دیوار نظر ٹھہرے ہیں
جو بھی آتا ہے تیرا نام پتہ پوچھتا ہے
اے صبا ہم تو تیری راہگذر ٹھہرے ہیں
دل اسی کوئے ملامت کی تمنا میں رہا
سایہ دست صبا میں بھی اگر ٹھہرے ہیں
ماہ تاب اور تری یاد کے جگنو خاور
مدتوں بعد یہ دونوں میرے گھر ٹھہرے ہیں۔
Facebook Comments Box