مسعود قمر کی نظم ۔۔۔ باسط میر

مسعود قمر کی نظم

” قبر دوسرے کی اترن سے خالی ہونی چاہیئے”

گفتگو ::  باسط میر

مسعود قمر کی اس خوبصورت نظم سے میں ازحد متاثر ہوں مسعود قمر کی شاعری بنیادی طور پر ہمارے سامنے مارٹن ہائڈریگر کی  اصطلاح  ” زندگی کے دریچے کو وا کرنا” کو ظاہر کرتی ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ یہ نظم زندگی کے ایک دریچے کو واہ کرتی ہے ۔میری نگاہ میں ہم اس کی شاعری میں وجودی فلسفے کے اثرات واضح طور پر اپنی پوری قوت کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں اور اس کی یہ نظم اس کی دوسری نظموں سے صرف ایک معنوں میں جدا ہے کہ اس کی یہ واحد نظم اس کی تمام شاعری سے زیادہ ژاں پال سارتر کے فلسفیانہ سوچ یعنی وجودیت کے فلسفے کی بھرپور نمائندگی کرتی ہے۔

نظم کے آغاز سے ہی ہم نظم کے مرکزی کردار کے ہاں پائے جانے والے شعور سے آگاہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ننگا انسان کی بجائے کسی دوسرے کی اترن تصور کرتا ہے ہم یہاں سارتر کے وجود فلسفی کی پہلی جھلک دیکھتے ہیں جس میں سارتر پوری قوت سے اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ انسان کا وجود اس کے جوہر سے مقدم ہے ۔مسعود قمر اپنی نظم میں اس بات کا اعتراف بھی کرتا ہے اور اس احتجاجی انداز سے ہمیں بتاتا ہے کہ:

 میں جب

 ماں کی کوکھ سے نکلا

 تو ننگا نہیں تھا

نظم کا مرکزی کردار اس حقیقت کے انکشاف پر حیرانی اور احتجاج کا اظہار کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ وہ ننگا نہیں بلکہ کسی اور کی زندگی کی اترن پہنے ہوئے ہے اس امر کی مختلف تشریحات ہو سکتی ہیں لیکن میں بہرحال یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ قاری کے سامنے اس حقیقت کو پیش کر رہا ہے کہ وہ ننگا ہونے کے بجائے اپنے والدین اور دوسروں سے وراثت میں ملی ہوئی عادات اور خصوصیات کو پہنے ہوئے ہیں چونکہ وہ اپنے آپ کو کسی بھی دوسرے کی اترن سے لبریز نہیں دیکھنا چاہتا بلکہ اپنے خود کو تلاش کرنا چاہتا ہے اس لیے اپنے خود سے ملاقات نہ کر سکنے کے باعث احتجاجی طور پر چیختا ہے جس پر اس کے ارد گرد کے لوگ اپنے منہ مٹھائی سے بھر لیتے ہیں کیونکہ اس کے احتجاجی چیخ کو وہ اس امر کی نشانی سمجھتے ہیں کہ وہ گونگا نہیں ۔

اس کے بعد نظم کا کردار سارتر کے وجودی فلسفے کی گہرائی میں اترتے ہوئے اپنے کردار کے جھوٹے پن اور خود فریبی کو ہمارے سامنے بے نقاب کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کا شعور اس کی مدد کرتا ہے اور وہ اپنی خود فریبی اور جھوٹ کو ترک کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کرتا ہے کہ وہ ننگا رہا کرے گا۔ وجودی فلسفے کے حوالے سے وہ ہمیں یہ بتانا چاہتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی کا سارتر کی زبان میں ایک “پراجیکٹ” تخلیق کیا ہے وہ کسی دوسرے کے خیالات اور تصورات سے اپنے آپ کو آزاد کرانے کا ارادہ رکھتا ہے جس میں جھوٹ اور خود فریبی سے آزاد ہونا ایک بنیادی “پروجیکٹ” کی صورت اختیار کر لیتا ہے قاری کی اطلاع کے لیے میں یہ بتانا چاہوں گا کہ سارتر کی خود فریبی کی اصطلاح کو فرانسیسی زبان میں “موویز فا “(movaisefoi) کہا جاتا ہے

لیکن نظم کا مرکزی کردار صرف ایک “پروجیکٹ “کی تخلیق کرنے پر ہی اتفاق نہیں کرتا بلکہ وہ سارتر کے ہاں استعمال کی جانے والی سب سے اہم اصطلاح کی گہرائی کو سمجھتے ہوئے اسے اپنانے کا ارادہ رکھتا ہے اور یہ اصطلاح “ماورایت” کہلاتی ہے سارتر کے نقطہ نظر کے مطابق ہر انسانی “پروجیکٹ” اپنے کامیاب ہونے کے نتیجے میں “پروجیکٹ” کے تخلیق کار کو “ماورا “کرتا ہے چنانچہ مسعود قمر اپنی نظم میں ہمیں یہ بتاتا ہے کہ نظم کا مرکزی کردار کسی اور کی اترن کو اپنی قبر میں لے جانے کے لیے تیار نہیں وہ اس عزم کا اظہار کرتا ہے کہ وہ کسی دوسرے کی اترن سے اپنے آپ کو ماورا کرنے کے بعد قبر میں جائے گا ہم یہاں سارتر کی وجودی سوچ کو پوری شدت سے دیکھ پاتے ہیں جب نظم کا مرکزی کردار اپنے آپ کو خود فریبی سے آزاد کرانے پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ وہ سارتر کی سوچ کے عین مطابق ایک پروجیکٹ سے تخلیق کرتا ہے جس کا بنیادی مقصد اپنے اپ کو موجودہ صورتحال سے ماورا کرنا ہے

نظم

قبر دوسرے کی اترن سے خالی ہونی چاہیئے

( اپنی دوست ثمین بلوچ کے نام )

میں جب

ماں کی کوکھ سے نکلا

تو میں ننگا نہیں تھا

میں کسی اور کی زنگی کی

اترن پہنے ہوئے تھا

دائی نے

مجھ کو کسی اور کی باس سے نہلایا

آنکھیں بند رکھنا

خود سے خود کو چھپانا ہے

میں نے خود کو تلاش کیا

مگر کسی اور کی اترن میں

خود کو نہ مل سکا

میں چیخا

لوگوں نے اپنے منہ مٹھائی سے بھر لیے

کہ میں گونگا نہیں ہوں

ساری کائنات میں

خالی پن تھا

مجھے چار چار، دس دس

اترن پہنے

محنت مزدوری کرنی پڑی

جنگوں میں لڑائیاں لڑنی پڑین

جعلی محبتیں کرنی پڑیں

جبر کے خلاف نکلے جلوسوں میں نعرے لگانے پڑے

ٹکٹکیوں پر کوڑے کھانے پڑے

اپنی گردن لمبی کرانی پڑی

اور ۔۔۔۔ اور

جعلی ہم بستریاں کرنی پڑیں

میں دوسرے کی اترن

قبر میں ساتھ لے کر نہیں جا سکت

قبر ماں کی کوکھ نہین

جہاں دوسرے کی اترن پہنچائی جائے

لیکن کفن بھی دوسرے کی

اترن ہی تو ہے۔

( مسعود قمر) 

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.