وطن ۔۔۔ کوثر جمال
“وطن”
کوثر جمال
تیس برسوں میں سارا منظر بدل گیا تھا۔ ان چند دنوں میں اپنے پرانے شہر کو نئی نگاہ سے دیکھتے دیکھتے اس کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔
آج وہ شہر کی اس مصروف سڑک پر چلا جا رہا تھا جہاں اس نے کبھی اپنے دوستوں کے ہمراہ گھومنے پھرنے کے ساتھ ساتھ خواب بنے، اور زندگی کو خوبصورت بنانے کے ڈھیروں منصوبے بنائے تھے۔ سڑک کے ایک طرف کینٹ کا صاف ستھرا علاقہ اپنے پھیلاو پر اترا رہا تھا تو دوسری طرف کمرشل ایریا کا پھیلاو بھی کچھ کم نہیں تھا۔ اب اکا دکا ہی پرانے سٹور دکھائی دیتے تھے۔ کئی کئی منزلہ شاپنگ پلازے بن چکے تھے۔ آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہو چکا تھا۔ بازار کی ہاو ہو بتا رہی تھی کہ لوگوں کی قوتِ خرید بڑھ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ بڑھا تھا۔ سول ہسپتال کے اندر کے مریض، اس کے سامنے کی گندگی، ریڑھیوں پر بھنبھناتی ہوئی مکھیاں، بھکاریوں کے درجنوں ہاتھ۔ چھوٹی سڑکوں پر کاروں کی تعداد اور قبرستانوں کا پھیلاو سب کچھ روز افزوں تھا، سوائے آبادی کی اوسط عمر کے۔ وہ جس محلے سے نکل کر پردیس گیا تھا اس کی حالت اور بھی ابتر تھی۔ وہ گھرانے جہاں پہلے صرف غربت تھی اب وہاں نشے کی لت، بیماری کا فروغ اور مذہب پرستی سے لتھڑا تعصب پھنکار رہا تھا۔ سب سے بڑی تبدیلی محلے کی مسجد میں آئی تھی۔ اس کے لاوڈ سپیکر بڑھ چکے تھے، نمازی بھی بڑھ چکے تھے، داڑھیاں بھی اور مولوی کے ٹھاٹھ بھی۔ لیکن کمی تھی تو سکون اور صفائی کی۔ خدا کے گھر کے آس پاس بھی آدھا ایمان گندگی سے دبک کر بیٹھا ہوا تھا۔
سڑک پر دوڑتی کسی بڑی سی کار کے تیز ہارن نے اس کے خیالوں کا سلسلہ برہم کیا تو اسکے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ یہاں کی بڑی کاریں، بڑے عہدوں کی طرح فرعون صفت تھیں۔ کچھ ہی فاصلے پر اسے ایک بہت بڑا سائن بورڈ ہوا میں چنگھاڑتا ہوا دکھائی دیا۔ بورڈ پر تحریر تھا:
“آج آپ جو کچھ بھی ہیں اسی وطن کی وجہ سے ہیں” ۔
بورڈ کے نیچے ایک عمر رسیدہ نابینا عورت ہاتھ پھیلائے کھڑی تھی۔ اور وہ جو کبھی اپنی یونیورسٹی کے بہترین دماغوں میں سے ایک تھا، اس کی جیب میں کسی دوسرے ملک کا پاسپورٹ قہقہہ زن تھا۔