جنس اور جارحیت کی نفسیات ۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

جنس اور جارحیت کی نفسیات

ڈاکٹر خالد سہیل

جنس اور جارحیت کارشتہ

یچیدہ بھی ہے گنجلک بھی

شعوری بھی ہے لاشعوری بھی

صحتمند بھی ہے مریضا نہ بھی

جنسی مباشرت بظاہر ایک جارحانہ عمل ہے لیکن جب یہ عمل دو محبوبوں کے درمیان

ہے تو اس میں محبت، پیار، اپنایئت اور خلوص آپس میں بغلگیرہوجاتے ہیں اور دو چاہنے والے اپنی

خوشی اور رضامندی سے ایک دوسرے کو جنسی معراج تک پہنچاتے ہیں اور جب اس معراج سے واپس لوٹتے ہیں تو ایک دوسرے کا شکر یہ ادا کرتے ہیں مشرق کی تانترک روایت تو جنسی مباشرت کو نرو ان حاصل کرنے کا روحانی طریقہ سمجھتی ہے۔

لیکن جب جنسی تعلق غیر صحتمند ہو جائے تو پھر ایک فریق مباشرت کو جارحیت کے طورپراپنے غصے، نفرت، تلخی اور بدلہ لینے کے جذبے کے لیے جنس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔

اگر جنسی مباشرت میں باہمی رضامندی شامل نہ ہو تو میاں بیوی کا تعلق بھی میریتل ریپ کا بھیانک روپ دھار لیتا ہے۔

جب جنسی تعلق مریضانہ سوچ سے جڑ جائے تو جہاں وہ ایک فرد کے غصے کا اظہار بن سکتا ہے  وہیں وہ جنسی تشدد کا روپ بھی دھار سکتا ہے۔ بعض مریضانہ ذہن جنسی استحصال کے بعد یا بعض قتل کے بعد جنسی مباشرت کرتے ہیں۔

جب جنس کو بدلہ لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو اس میں پورا خاندان اور سارا گاوں بھی ملوث ہو سکتا ہے اور مریضا نہ پنچایت یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ بدلہ لینے لیے دوسرے گاوں کی لڑکی کو تینگ رپ GANG RAPE کر کے اجتماعی جنسی تشدد و کانشانہ بنایا جائے ۔

انسانی تاریخ کی کتابوں میں ایک سیاہ باب ایسا بھی ہے جس میں دشمن کی لڑکیوں اور

عورتوں کو کنیزیں بنا کر بانٹا گیا اور ان کی مرضی کے بغیر ان کے ساتھ جنسی اختلاط کیا گیا۔

بیسویں صدی میں سگمنڈ فرائڈ نے اپنی نفسیاتی تحقیق سے ہمیں بتایا کہ وہ لڑکیاں جو

روایتی خااندانوں اور مذہبی معاشروں میں پلتی بڑھتی ہیں وہ جب جوان ہوئی ہیں تو اپنے شہوانی جذبات کو قبول کرنے کی بجائے اپنے لاشعور میں دھکیل دیتی ہیں تا کہ احساس گناہ و  ندامت سے بچ سکیں لیکن وہ جنسی جذبات لاشعور میں جا کر ہسٹیریا کا نفسیاتی مسئلہ بن جاتے ہیں اور پھر صحتمند ہونے کے لیے انہیں نفسیاتی علاج کی ضرورت پڑتی ہے۔

مغرب کی سیکولر سوچ نے ہمیں سکھایا کہ ہم جنس کو مذہبی اخلاقیات کی بجائے انسانی نفسیات کے حوالے سے بھی دیکھ سکتے ہیں ۔

ایرک فرام نے جو ایک امریکی ماہر نفسیات تھے اپنی کتاب THE ANATOMY

میں جارحیت کا نفسیاتی تجزیہ کرتے OF HUMAN DESTRUCTIVENESS

ہوئے ہمیں بتایا کہ جانوروں کی جارحیت اور انسانوں کی جارحیت میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ جانوروں میں BENIGN AGGRESSION پائی جاتی ہے۔ شیر اس وقت شکار کرتا ہے جب وہ بھوکا ہوتا ہے۔ شیر کا پیٹ بھر جائے تو وہ پرسکون ہو جاتا ہے۔

MALIGNANT AGGRESSION انسانوں میں پائی جاری ہے جو بہت

خطرناک ہو سکتی ہے۔ انسان جب اپنی جارحیت کو کسی ارفع جذبے اور کسی اعلیٰ مقصد کے ساتھ جوڑتا ہے تو وہ اپنے قلم اور جبر کو مقدس بنا دیتا ہے۔ انسانی جارحیت جب روایت مذہب اور سیاست سے جڑ جاتی ہے تو انسانیت کے لیے خطرے کی گھنٹی بن جاتی ہے۔

فرانز فین نے جو الجیریا کے ایک سیاہ فام ماہر نفسیات تھے اپنی مشہور کتاب THE

WRETCHED OF THE EARTH  میں یہ بتایا کہ جب کوئی ظالم و جابر قوم کسی کمزور قوم پر ظلم کرتی ہے تو اس ظلم کا زہر اس قوم کے لاشعور میں جمع ہوتا رہتا ہے اور جب اس مجبو رو منظلوم قوم کے بچے جو ان ہوتے ہیں اور ان کو موقعہ ملتا ہے تو وہ بدلہ لیتے ہیں اور برسوں دہائیوں اور صدیوں کے زہر کو الٹ دیتے ہیں۔ یہ بدلہ نفسیاتی بھی ہو سکتا ہے سیاسی بھی معاشی بھی اور جنسی بھی۔

جنس اور جارحیت کا رشتہ کنجالک بھی ہے اور پیچیدہ بھی۔ انفرادی اور سماجی ماہرین نفسیات آج بھی اس رشتے کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جہاں ماہرین نفسیات جنس اور جارحیت کا نفسیاتی تجزیہ پیش کرتے ہیں وہیں شاعر اور

ادیب اس تجزیے کا تخلیقی اظہار کرتے ہیں۔

جب ہم اردو شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اکثر شاعروں نے

روایتی شاعری کی اور ایک خیالی محبوبہ کے عشوہ و غمزہ و انداز وادا کے بارے میں

ایسی غزلیں اور نظمیں لکھیں جن کا حقیقی زندگی سے کوئی زیاد تعلق نہیں تھا۔ اردو شاعری میں جنس کو شجر ممنوعہ سمجھا گیا اور اسے ہوس کا نام دے کر رد کر دیا گیا۔ روایتی شاعروں کے ساتھ ساتھ چند ایسے شعرا بھی تھے جنہوں نے جنس کو انسانی شخصیت اور محبت کا حصہ سمجھ کر غزلیں اور نظمیں لکھیں لیکن وہ اردو ادب میں کالی ہدنام ہوئے ۔ یہاں میں صرف دو مثالیں دینا چاہتا ہوں۔

پہلی مثال

مصطفی زیدی کی ہے جنہوں نے اپنی محبوبہ شہنازگل کا نام لے کر ان کے لیے کئی

غزلیں لکھیں۔

ایک غزل کے دو اشعار ہیں

فنکار خود نہ تھی میرے فن کی شریک تھی

وہ روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی

اس پہ کھلا تھا باب حیا کا ورق ورق

بستر کی ایک ایک شکن کی شریک تھی

دوسری مثال ن م راشد کی ہے ۔ ان کی ایک نظم حاضر خدمت ہے

انتقام

اس کا چہرہ اسکے خدو خال یاد آتے نہیں

اک شبستاں یاد ہے

اک برہنہ جسم آتشداں کے پاس

فرش پر قالین قالینوں پر سیح

دھات اور پتھر کے بت

گوشہ دیوار میں دھنستے ہوئے

اور آتشداں میں انگاروں کا شور

ان بتوں کی بے حسی پر خشمگیں

اہلی اہلی اونچی دیواروں پہ عکس

ان فرنگی حاکموں کی یادگار

جن کی تلواروں نے رکھا تھا یہاں

سنگ بنیاد فرنگ

اس کا چہرہ اسکے خد و خال یاد آتے نہیں

اک برہنہ جسم اب تک یاد ہے

اجنبی عورت کا جسم

میرے ہونٹوں نے لیا تھا رات بھر

جس سے ارباب وطن کی بے حسی کا انتقام

وہ برہنہ جسم اب تک یاد ہے

ن م راشد پر اس نظم کی وجہ سے ادب کے جن روایتی مولویوں پادریوں اور پنڈتوں

نے سنگباری کی ان میں کچھ ترقی پسند ادیب و نقاد بھی شامل تھے ۔ یہ ایسی ہی سنگباری تھی جس کا سعادت حسن منٹو آسکر وائلڈ اور سگمنڈ فرائڈ کو سامنا کرنا پڑا۔ یہ اعتراضات ان حضرات و خواتین کی طرف سے تھے جو ادب کو اخلاقیات کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں ۔

جہاں تک جنسیات کی نفسیات کا تعلق ہے میں ن م راشد کی اس نظم کو اردو شاعری کی چند اہم نظموں میں شمار کرتا ہوں ۔ اس نظم میں نہ صرف جنس کا جارحیت سے تعلق عیاں ہے بلکہ مشرق کا سماجی اور سیاسی احساس کمتری بھی نہاں ہے۔

اس نظم کو تخلیق کرتے ہوئے ن م راشد نے انسان کی انفرادی اور سماجی نفسیات کے ان گوشوں میں جھانکا ہے جس کے قریب بھی جاتے وقت بہت سے ادبی سورماؤں اور روایتی مولویوں کے پر جلتے ہیں

اگر ہم نے جنس اور جارحیت کے پیچیدہ اور گنجلک رشتے کو سمجھنا ہے تو ہمیں انسانی رشتوں کی کہانی کو اخلاقیات کی بجائے نفسیات کی عینک سے پڑھنا اور سمجھنا ہوگا۔ یہ علیحدہ بات کہ

فکر ہر کس بقدر ہمت اوست۔

(انسانی نفسیات کے راز: ڈاکٹر خالد سہیل
مطبوعہ: سٹی بک پوائنٹ کراچی)

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031