انسانوں میں اکیلا انسان ۔۔۔ لال خاں
انسانوں میں اکیلا انسان
(ڈاکٹر لال خاں )
آج اس معاشرے کے تمام انسان جس کرب میں مبتلا ہیں اس نے زندگی کو تلخ اور مسلسل تناؤ کا شکار کردیا ہے۔ معاشرے میں اتنا انتشار ہے کہ ہر چیز اور ہر حرکت میں ایک تیزی اور اکتاہٹ ہے۔ ہر کام کو جلد سے جلد ختم کرنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ لیکن کوئی بھی کام ہے کہ ختم نہیں ہوتا۔ اس سماج کے بحران سے طرز زندگی ہی یہ بن گیا ہے کہ انتہائی تگ ودو اور جانفشانی کے بعد جب کوئی مسئلہ حل ہوتا ہے تو ایک نیا اور اس سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ مسئلہ آن دبوچتا ہے۔
اس سماجی نظام میں ایک طرف مانگ ہے اور دوسری جانب نئی نئی اشیا کی نمائش ہے۔ موبائل فونوں سے لے کر موجودہ مسلط کردہ طرز زندگی کے مختلف فیشنوں و ضروریات میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پانی‘ بجلی‘ روٹی‘ نکاس‘ رہائش‘ تعلیم اور علاج جیسی بنیادی ضروریات سے محرومی ہے اور ثانوی ضروریات کی بھر مار ہے۔ یہ کوئی فطری ارتقا کا ناگزیر عمل نہیں ہے بلکہ حکمرانوں کو پانی کی ترسیل کی نسبت موبائل سروس میں منافع کی زیادہ شرح ملتی ہے۔ پھر موبائل فون کو ایسی ضرورت اور فیشن بنا کر نفسیات پر سوارکردیا جاتا ہے کہ صاف پانی کے حصول کو چھوڑ کر انسان موبائل فون میں غرق ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ فون کے بغیر گھر سے نکلنا تو درکنار کسی فطری ضرورت کے لیے بھی موبائل سے فاصلہ اپنانا مشکل ہوگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کی کھپت بڑھانے کے لئے اس کے استعمال کو پھیلانا مقصود ہوتا ہے اور استعمال کا تعین اس وقت کا مسلط کردہ فیشن کرتا ہے۔
اگر غور کریں تو یہ سب بنیادی طور پر انسان کی اس خلفشار بھرے معاشرے میں بیگانگی کی اندوہناک ویرانی کی غمازی کرتا ہے۔ اتنی بھیڑ ہے پھر بھی انسان اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرتا ہے۔ معاشرے کا سماجی و نفسیاتی بحران اتنا بڑھ گیا ہے کہ رشتوں پر اعتبار نہیں اور کوئی محرم راز نہیں‘ کسی پر اعتماد سے انسان کو خوف آتا ہے۔ ہر رشتے میں مطلب مقصد اور لالچ کا زہر بھر ا ہوا ہے۔
ملازمتوں سے لے کر ٹھیکوں تک،سکولوں میں داخلوں سے لے کر علاج کے حصول تک، جائز اور سیدھے راستے مسدود ہو چکے ہیں۔ سفارش بھی اب قصہ پارینہ بن چکی ہے، ہر جگہ پیسہ چلتا ہے۔ انسانی ناطے مطلب کی تجارتوں کے رشتے بن کر رہ گئے ہیں۔ سب مفادات کے یارانے ہیں، دکھاوے کے رشتے ہیں۔ تحفوں اور احسانات سے تعلق بنتے اور چلتے ہیں۔ مادی مداخلت کے بغیر کوئی رشتہ جوڑنے کی ریت ہی ختم ہوچکی ہے۔ قربانی اور ایثار کے جذبے ناپید ہوچکے ہیں۔ وفا اور محبت سچائی کھوچکے ہیں۔
ہر رشتہ ہر تعلق ہر پیار اب مالیاتی وسائل مانگتا ہے، غرضیکہ انسان کے نازک اور قریب ترین جذباتی اور دلی لگن کے تعلقات کو بھی اس نظام زر نے کمرشلائز کر دیا ہے۔ جب اس بھیڑ کی ہلچل اور شور سے نکل کر عام انسان اپنے بارے میں سوچتا اور زندگی گزارنے کی ضرورت کے تحت کسی قابل اعتماد تعلق، ناطے یا رشتے کی تلاش کرتا ہے تو اپنے آپ کو تنہا پاتا ہے۔ روح اور احساس کی اس بیگانگی سے چھٹکارا پانے کے لیے پھر ضروریات کے حصول کی اندھی اور لاامتناعی دوڑ میں شامل ہو جاتا ہے۔ پھر کبھی وہ گھائل ہوجائے، بیماری کا شکار ہو اور اذیت، تکلیف یا کسی صدمے کا شکار ہو جائے تو آسرے ڈھونڈتا ہے۔ وہ وقتی اور جلد ہی دغادے جانے والے ہی ثابت ہوتے ہیں۔ انسانیت کا یہ درد اور رشتوں کی خلش وجستجو تو ان کی بھی ہوتی ہے جو دغا دے جاتے ہیں۔ لیکن معاشرے اوردولت کے جبر نے زندگی کواتنا مفلوج کر دیا ہے کہ وہ ایک دل اور جذبے رکھنے والا انسان رہنے نہیں دیتی۔
ٹراٹسکی نے اس سرمایہ دارانہ معاشرے کی نفسیات کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’زندگی اور سیاست کسی ممنونیت یا تشکر کو جانتی ہی نہیں۔‘‘ اس مادی زندگی سے نکلنے کے لیے جو مابعداطبیعات اور تخیلاتی سوچوں پر مبنی راستے دکھائے جاتے ہیں وہ خود مادی دولت کے کاروبار ہوتے ہیں، اسی کے مقاصد کے لئے استعمال ہوتے ہیں اور جلد یا بدیر انسان کو شعوری انداز میں اس ہوس زر کے زہر سے نکالنے کی بجائے اس کو جنون کے راستے پر گامزن کر دیتے ہیں۔ یا پھر اس کو انتہائی منافقت بھری نئی اخلاقیات اپنانا پڑتی ہے جس میں ظاہری طور پر نیکی اور انسان دوستی کے نا ٹک کے پس پردہ پہلے کی نسبت زیادہ عیاری ہوتی ہے۔
آج کے دور میں بیگانگی اور تنہائی کا مسئلہ بنیادی طور پر انفرادی یا شخصی نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی معاشرتی مسئلہ ہے جو اس نظام زر اور اس کے بحران سے پورے سماج کو لاحق ہے اور اس کا ہر باسی کسی نہ کسی شکل اور سطح پر اس سے متاثر ہوتا ہے۔
1844ء میں کارل مارکس نے اس سرمایہ دارانہ نظام کے سماجی بحران کو بیان کرتے ہوئے لکھاتھا کہ ’’یہاں کی سیاسی معاشیات صرف لالچ کے پہیوں کو چلاتی ہے اور لڑائی کو مقابلہ بازی کی صورت میں سامنے لاتی ہے۔ جب کسی بھی سرمایہ دارانہ سماج میں زوال ہو تو محنت کشوں کی ذلت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے لیکن جب یہی نظام ترقی کر رہا ہو تو اس ذلت میں مختلف قسم کی پیچیدگیاں آ جاتی ہیں لیکن اس نظام پر مبنی معاشرہ اگر ترقی کی انتہاؤں تک بھی پہنچ جائے تو یہ ذلت ایک جمود کی حالت میں موجود رہتی ہے۔‘‘
مارکس کا نظریہ بیگانگی اس سائنسی حقیقت پر مبنی ہے کہ اس نظام میں محنت کرکے پیداوارکرنے والا مزدور اپنی پیداوار سے محروم اور اس کامعتوب ہی رہتا ہے۔ اتنی مشقت اور تگ و دو کر کے انسان اپنے مسئلے حل کرنے کی دوڑ میں زیادہ پیچیدہ اور گھمبیر مسائل سے دوچار ہو جاتا ہے۔ یہاں انسان کو اس عمومی نفسیات میں جکڑا گیا ہے کہ اگر وہ یہ امتحان پاس کرلے گا، فلاں ڈگری حاصل کرے گا، وہ مکان خرید کر یہ شادی کر لے گا، یہ سودا ہو جائے گا تو سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ لیکن عملی زندگی میں ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اس مظہر کو منیر نیازی نے کچھ ان الفاظ میں درج کیا تھا۔
ایک اور دریا کاسامنا تھا منیرمجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے
دیکھا
لیکن ہمیں یہاں کے ’’مفکرین‘‘ نے یہی سکھایا ہے کہ یہ مقابلہ بازی کی دنیا ہے، جو زیادہ ’’محنت‘‘ کرے گا وہی آگے بڑھے گا اور ’’بڑا‘‘ آدمی بنے گا۔ لیکن حقیقت میں ایسے ہوتا نہیں ہے۔
ابراہیم لنکن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک لوہار کا بیٹا تھا لیکن امریکہ کا صدر بن گیا لیکن ایسے ہزاروں لاکھوں لوہاروں کے بیٹے امریکہ میں بھٹکتے پھرتے تھے جنہوں نے کہیں زیادہ محنت کی ہو گی۔ یہاں موقع بھی وسائل والوں کو ملتا ہے۔ یا پھر کم وسائل والے لاکھوں کروڑوں میں سے کسی ایک کو حادثاتاً مل جاتا ہے۔ لیکن نہ تو بھاری اکثریت ایسے مراعات یافتہ طبقات سے تعلق رکھتی ہے اور نہ ہی ہر کوئی ایسے ’’حادثات‘‘ کا شکار ہوتا ہے۔ ورنہ حادثہ، حادثہ ہی نہ رہے۔
مقابلہ بازی کی نفسیات اور عمل بھی کو دوسروں کو زیر کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ ’’آزاد مقابلہ بازی‘‘ کا حتمی انجام اجارہ داری اور غلبہ ہی ہوتا ہے۔ دولت کے اس سماج کی نفسیات، اخلاقیات اور اقدار میں اس سب کو جائز سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ترغیب دی جاتی ہے۔ نجی ملکیت کی اجارہ داری اور دولت کا اجتماع ایک مقدس چیز بنا کر پیش کی جاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ چند افراد کی اس معاشرے کی دولت، وسائل اور معیشت پر اجارہ داری ہی اس محرومی اور مجبوری کی وجہ ہے جو اور انسان کو تنہا بنا دیتی ہے۔
اس ضرورتوں بھرے سماج کا خاتمہ کرنے کے لیے اس معاشرے کے تمام ذرائع اور وسائل کو اشتراکی ملکیت میں دے کر ہی انسان کے لئے محرومی اور بیگانکی سے آزاد زندگی کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے۔