داستان ( ششم ) ۔۔۔ ڈاکٹر صابرہ شاھین

.آبھی دھوپ میں تیزی نہیں آئی تھی ہوا اپنی خنکی سمیت گالوں کو چھو کر گزرتی تو اک میٹھی سی گدگداہٹ بدن سے روح تک میں اتر جاتی۔ اور اک بے نام سی شوخی اور مسکان ہونٹوں پر اتر آتی۔ قہقہہ لگانے کو دل کرتا مگر سامنے کی اترایوں سے پھر بلند ہوتی کچھ سرمئی اور کچھ  دودھیا بادلوں  سے سر نکالتی چھپتی  چوٹیاں اپنی طرف متوجہ کر لیتں اور میں اپنے قہقہے کو اگلے لمحے پر ٹالتی اپنے بابا کو اتنی پیاری لگی کہ انھوں نے جھک کر میرے ماتھے کو چوم لیا ۔ اور بولے میری  آرام بانو کیا سوچ کر مسکاتی ہے۔ بابا مجھے زور سے ہنسنا ہے میں نے چوٹیوں پر نظر جمائے لاڈ سے کہا… ۔تو کس نے روکا ہے ہنسے میرا بچہ،  بابا بھی ‘سر سے ‘سر ملائیں گے ۔ پرایک مسلہ ہے بابا۔۔۔۔(نظریں وہیں جمی ہوئیں۔) کیا  ؟ بابا نے سوال کیا؟ ۔ سمجھا کریں نا۔۔۔۔۔بابا ۔۔۔۔ہنسوں گی تو آنکھیں بند ہو جائیں گی ۔آنکھیں بند ہوئیں تو اتنا پیارا منظر چھوٹ جائے  گا ۔۔۔ تو۔۔۔۔ کیسے ہنسوں ؟  ہووں مسلہ تو واقعی بڑا ہے۔ باجی’ شاہدہ ‘چاند'(بہنیں) ندیم اور خالد (چھوٹے بھائی ) جو کچھ فاصلے پر اک اور چوٹی پر گھوم پھر رہے تھے بابا نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ کیوں  نہ تمھارے بہن بھائیوں کو بلا کر مشورہ کیا جائے شاید وہ اس گمبھیر مسلئے کا کوئی حل بتا سکیں ۔۔۔ نہیں بابا ایسے مناظر اکیلے میں دیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے ۔

 تریموں  فورٹ منرو کا وہ خوبصورت مقام ہے جس کو دیکھنےکے لیے لوگ بہت پرجوش ہوتے ہیں ۔ پانی کے کٹاور سے پہاڑ کے نیچے اک مقام پر پیالہ سا بن گیا ہے اور اس پیالے میں سارا سال پانی اک فوارے کی طرح اترتا رہتا ہے اگر زیادہ بارش ہو جائے تو واٹر فال کی شکل اختیار کر لیتا ہے ورنہ پھوہار کی طرح اس قدرتی پیالے میں ٹپکتا رہتا ہے۔اس ٹپکتے پانی کا منبہ وہ جھیل ہے جو اوپر پہاڑوں کی ڈھلوان میں موجود ہے۔ مگر اب یہ جھیل اپنی قدرتی صفائی سے محروم ہو چکی ہے ۔  اس کے ارد گرد ہوٹلز کے طویل سلسے کے کٹروں کی نکاسی کا انتظام کیونکہ اسی جھیل میں ہےجس کی وجہ سے جھیل کا پانی آلودہ، بد بودار اور سیاہ ہو چکا ہے ۔ پیالے میں ٹپکتے پانی کی وہ الوہیت اور رومانس  جو کبھی اس سے منسوب تھے فنا ہو چکے ہیں۔ہم  پہاڑ سے نیچے  اتر کر تریموں پیالے کی طرف جانے کی بجائے  اس پیالے کو بائیں سائڈ کے پہاڑ سے نظارہ کر رہے تھے  خامشی اور انہماک کے اک لمبے وقفے کے بعد ۔اچانک بابا  کا پاوں  رپٹا میں فورآ مڑ کر ان کی طرف بھاگنے ہی والی تھی کہ وہ خود سنبھل گئے۔ اور بادلوں کا وہ طائفہ بھی سامنے کی سرمئی چوٹیوں سے دور اپنا سارا دودھیا حسن لیے دور کی چوٹیوں کی اور آڑ چلا تھا ۔میں جیسے جیسے  بڑی ہوتی جاتی تھی مجھ سے میری پیاری چیزیں چھنتی جا رہی تھیں ۔میرا پیارا بکرا جس کی کمر پر بیٹھ کر میں چڑیوں اور گلہریوں کو نشانہ بناتی تھی ۔اپنے حصے کا مکھن اور فروٹ  اس کو کھلاتی تھی۔ وہ اب تھکنے لگا تھا موٹا ہونے کی وجہ سے تیز نہیں بھاگ سکتا تھا۔ ۔ میری ٹانگیں بھی لمبی ہونے کی وجہ سے زمین پر لگنے لگی تھیں۔ اس وجہ سے یہ سواریاب میرے لیے کافی مشکل پیدا کر رہی تھی ۔ مگرمحبت اپنی جگہ قائم  تھی ۔ پھر یوں ہوا کہ عید_قرباں آ گئی اورمجھ سے میرا محبوب ابرک چھین کر لے گئی۔ بابا نے بتائے بغیر اس کو قربان کر دیا تھا۔ جس وقت قصائی نے اس کی گردن پر چھرا رکھنے کی تیاری کی میں نے چیختے ہوئے  اس کی گردن پر اپنا گلا رکھ دیا۔ میرے چچا کے بیٹے نے آو دیکھا نہ تاو مجھے بکرے کی گردن سے نوچ کر الگ کیا اپنی باہوں  میں جکڑا اور حویلی لے گیا ۔ میں نے باہر نکلنے کی اپنی سی تمام کوششیں کر لیں مگر کامیاب نہ ہو سکی ۔اور ۔۔۔۔اور۔۔۔کچھ دیر بعد میرے ابرک (میں نے اس کا نام  ابرک سفید رنگ کی وجہ سے رکھا تھا )کا گوشت گھر آگیا۔  شام کو بہت سوں نے مزے لے لے کر اس کا سالن کھایا۔مگر  میں  عید کے دن  بھوکی ہی سو گئی۔اماں کے بعد میرے ننھے سے دل پر یہ دوسرا چرکا تھا۔ جو مجھ سے میری ہنسی کا ایک اور بڑا حصہ چھین کر لے گیا۔سردار سیف اللہ بغلانی  گدائی کی چیف فیملی کے فرزند_ دلبند اور بابا کے  خالہ زاد تھے۔ ہماری دادی اماں اور سیف اللہ بغلانی کی بیوی آپس میں بہنیں تھیں  دونوں کا حسن زہد شکن تھا ۔سیف اللہ نے دوسری شادی بابا کی خالہ سے ان  کے حسن کی دھوم سن کر کی اور   گرویدہ ہوکر رہ گئے صرف اتنا ہی  نہیں انھوں نے تو اپنی خاندانی  بیوی سے قطع تعلق بھی کر لیا ۔ پھر یوں ہوا کہ ان کی پہلی  بیوی  نے  حویلی میں دیوار آٹھا کر بلوچ انانیت کی پاسداری کی اور کسی سمجھوتے کی سان پر چڑھ کرسرجھکا کر راضی بر رضا رہنے سے انکار کر دیا ۔ عمر بھرسردار سیف اللہ بغلانی سے ناصرف پردہ کرتی رہیں بلکہ یہ اعلان بھی کر دیا کہ میں نہ تو طلاق لوں گی اور نہ ہی سردار کو اس بات کی اجازت دونگی کہ وہ حویلی کے اس حصے سے گزر جائے جو اب صرف ان کا ہے۔البتہ سردار کے بچوں کو انے جانے سونے کھانے کی اجازت ہو گی۔ دوسری بیوی سے  سردار سیف اللہ کی نو اولادیں تھیں دو بیٹے اور سات بیٹیاں ۔سنا ہے یہ سب اپنی بڑی (بلوچنی) ماں کا  احترام کرنے  کے ساتھ ساتھ اس سے بے پناہ محبت بھی کرتے تھے جواب انھیں مکمل مامتا ملی۔  سردار سے  بلوچنی کے پردے کو ہمیشہ اک دلچسب قصے کے طور پر ساری اولادیں دھراتی اور مزہ لیتی رہیں۔ میرے دادا  ملک گل محمد نے تیسری شادی اپنی پہلی دو بیویوں کے دباو میں آکر (خاندانی حکایات کے مطابق ‘ گو کہ میرا خیال اس سے مختلف ہے جس کا اظہار میں نے  اکثر اپنے چچاوں سے کیا اور جواب میں اک مسکان کے سوا کوئی جواب نہ پایا) کی۔ مگر  تینوں بیویوں میں ان کے انصاف کا اک  زمانہ گواہ ہے۔ انھوں نے سب کو خوش رکھا۔ پہلی خاندانی بیوی کا رتبہ حویلی میں ملکہ_ عالم کا سا تھا ۔خاندانی نظام و وقار کا تا ج بلا شرکت_غیرے ان کے سر سجا۔ بچوں کی تعلیم وتربیت اور خانگی امور میں وہ کاملآ  آزاد و خود مختار تھیں۔ ان کے فیصلوں کو چیلنج کرنا خود دادا کے لیے بھی مشکل تھا۔ دوسری بیوی ان کی معاون و مشیر تھیں مگر بہت کم وقت زندہ رہیں ۔ان کی اعلی ظرفی  کی حکایات خاندان کے بچے بچے کی زبان کا ورد رہیں۔  تیسری بیوی عائشہ حویلی کی لاڈلی بہو’ ہونے کے علاوہ محبوب_دلنواز  تھیں ۔انھوں نے کھوہاوڑ خاندان کو چار بیٹے اور ایک بیٹی دے کر خوش بختی کے سب ستارے اپنی مانگ میں سجا لیے۔ مگر ان کی خوش بختی بہت کم مدت کی تھی دادا ابو نے دنیا چھوڑنے میں جلدی کی۔  بڑی دادی جن کا حویلی ہی میں نہیں علاقے میں بھی اک دبدبہ اور رعب تھا اور جو حویلی کے علاوہ جائیداد کے معاملات بھی بخوبی سنبھال سکتی تھیں دادا کے بعد زیادہ دن نہ جی سکیں اور راہی_ملک_عدم ہوئیں ۔ کم  سن دادی عائشہ  کو حویلی کی سازشوں نے دوسری شادی پر مجبور ہی نہ کیا بلکہ ان کی ناسمجھی اور بےخبری سے فائدہ آٹھاتے ہوئے جائداد ‘زمینیں سب ہڑپ کر لی گئیں۔ دوسرے خاوند سے دادی کی دو اولادیں   “ایک بیٹا اور ایک بیٹی” ہوئیں۔  بابا بہت کم سن تھے مسائل اور تکالیف کا اک سلسلہ تھا کہ ختم ہی نہ ہوتا تھا ۔ ابھی ان کی عمر کا اٹھارواں سال بھی مکمل  نہ ہوا تھا کہ سردار سیف اللہ نے  حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئےبابا کو  بلوچ لیوی میں تعینات کر دیا ۔ یاد رہے کہ سیف اللہ بغلانی سرداری کے علاوہ بلوچ لیوی میں اعلی عہدے پر بھی متمکن تھے۔  ملازمت کے چند سال بعد ہی دادی نے بابا کو علاقے کے مولوی   کی بارہ سالہ یتیم بیٹی سے  بیاہ دیا۔ اماں کا گھرانہ علمی گھرانہ تھا اور بابا کا خاندان زوال پذیر ‘ منہدم ہوتی عظمتوں کی چٹختی ‘گلتی بنیادوں پر جھولتا اک شاہی قلعہ تھا۔ جسے ہوا کا اک جھونکا ہی گرانے کو کافی تھا۔ کھوہاوڑ قبیلے کے افراد تیکھے نقوش کے   دراز قد گورے چٹے  لوگ تھے۔ سرائیکی خواتین سے شادیوں کی بنا پر اب اس قبیلے میں گندمی رنگ افراد بھی نظر آجاتے ہیں ۔ عائشہ دادی کے بوٹے قد نے  بقول بڑے چچا “دوست محمد” پوری نسل کی قامت کو برباد کر دیا۔ جس کی وجہ سے  ہمارے خاندان میں کچھ افراد بوٹے قد کے بھی ہیں۔  بابا اور دو چچا  چھوٹے قد کے جبکہ دو چچا دراز قد ہوئے  ۔آبرک کے جانے کے بعد میں نے اپنی معمول کی سب سرگرمیوں کو ترک کردیا ۔میری کمان اور تیر کمرے کی کھڑکی میں الجھے رہ گئے ۔ غلیل  بھینسوں کے باڑے میں گوبر سے لتھڑتی رہی  ۔ جامن کی ننھی کھوہ میرے انتظار میں باہیں کھولے سوتی رہ گئی ۔ مجھے اب ان سب سے دلچسبی نہ تھی ۔ہم عمر کزنز کے ساتھ بھی اک خاص قسم کا موہوم فاصلہ پھلنے پھولنے لگا تھا ۔ بہن بھایوں سے گھلملاہٹ بھی پھیکی پڑتی جاتی تھی۔ میں اپنی ذات میں تنہا ہوتی جارہی تھی اس تبدیلی کو سب سے پہلے میرے  طاہر بھائی نے محسوس کیا۔ ایک دن اپنے سامنے بٹھا کر پوچھنے لگے ۔یہ جھانسی کی رانی اتنی اداس کیوں ہے۔ نہیں تو ۔۔۔۔سچ مچ کا گھوڑا خرید دوں  اپنی بہنا کو ۔؟ نہیں۔۔۔ تو۔۔۔۔ پھر۔۔۔؟ کچھ نہیں۔۔ پھر وہ مجھے کہانی سنانے لگے اور میں دھیرے دھیرے نیند کی وادی میں اتر گئی۔ یہ جاڑے کے دن تھے۔ صبح آنکھ کھلی تو سردیوں کی لاغر پیلی دھوپ سارے میں کھلی تھی ۔ اک خاص قسم کی اداسی رت میں ٹہر گئی تھی  شام بھی تنہا تنہا سی اترتی جاتی تھی ۔ہوا کی رفتار بہت کم تھی مگر یخ بستگی  اس کے اک اک لہرے میں رچی تھی۔ میں نے مشکی(گھوڑا)  کی اگلی ٹانگ پر ہاتھ پھیرا جواب میں وہ اپنی تھوتھنی پیار سے میرے چھوٹے سے کندھے پر ملنے لگا۔ دل اس کے پیار سے نہ بہلا اور میں حویلی سے نکل کر جنوبی پگڈنڈی پر چلتی چلی گئی میری چچا زاد کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ بھی ساتھ ہو لی ۔ اچھا بھلا فاصلہ طے کرنے کے بعد بے آباد زمین کا اک وسیع  قطعہ آگیا ۔ زمین ناصرف خشک بنجر تھی بلکہ صدیوں کی پیاس سے پھٹ سی گئی تھی ۔  چھوٹی بڑی دراڑوں نے زمین کی چھاتی چھید کر رکھ دی تھی۔ میری چچا زاد نے کنارے پر جوتا آتارا اور اندر اتر گئی ۔میں نے بھی اس کے تتبع میں چوتا پاوں سے نکالا اور دراڑوں پر پاوں رکھتی  چلنے لگی۔  زمین اک ہلکی سی دبی دبی چیخ کے ساتھ ہمارے وزن سے ٹوٹتی اور دراڑ بھر جاتی مگر جونہی ہم دونوں ذرا گہری دراڑوں پر چڑھے دراڑوں نے ہمارے چھوٹے چھوٹے پیروں کے  تلووں کو اس بے دردی سے کاٹا جس طرح قینچی کپڑے میں کٹ لگاتی ہے۔ چچا زاد تو زمیں پر ننگے پاوں چلنے کی عادی تھی اور اس کے تلوے کسی حد تک سخت بھی تھے مگر میرے سارے پاوں نہ صرف کٹ گئے بلکہ ان میں سے خون کی تیز دھاریں سی پھوٹ بہیں۔  سامنے اک آدمی جاتے جاتے ہماری طرف مڑا دونوں کو اپنے دونوں  کندھوں پر  ڈالا اور گھر چھوڑ گیا ۔چاچی نے اپنی بیٹی کے ساتھ ساتھ میرے تلووں پر بھی مرہم لگائی مگر میرے زخم گہرے تھے اور خون تھا کہ رکنے کا نام ہی نہ لیتا تھا ۔لہذا مجھے اسپتال لے جانا پڑا۔ بات صرف زمین کی دراڑوں تک محدود نہ رہی تھی ۔ اب میری توجہ اور دھیان کے سنگاسن پر  پیروں کے نیچے ٹوٹتے کرلاتے سوکھے  پتوں کی صدائیں’ ہوا کی چھن چھن ‘ جھرنے میں بہتے پانیوں کے اکتارے کے مدھر سر اور سبز نویلے پتاور کی جھانجر کے نغمے براجمان ہو چکے تھے۔ چاندنی قرنوں کی کہانیاں کہتی تھی۔ بلند سرمئی پہاڑ مجھے اپنی اور کھینچتے ۔سمندر کی انچی اونچی لہریں لمبے سفر کاسندیس دیتں اور صحرا کے سینے پر کھیلتی الہڑ چاندنی بنسی کی تانوں پر کبھی میرا بائی کا ہجر الاپتی اور کبھی تان سین کی آواز کا جادو جگاتی۔ اب روز بروز میری زبان گنگ ہوتی جاتی تھی جب کہ  آنکھیں اور کان بہت تیزی سے دنیا دیکھنے اور سماج سننے لگے تھے.سارے زمانے میری چھوٹی سی کھوپڑی میں گڈ مڈ  الجھے رہ گئے تھے ۔ماضی ‘حال اور مستقبل ساتھ ساتھ وارد ہوتے۔ ابھی میں حال کے پل پر سماج و تہذیب کے سیہ و سفید کی چمتکار کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ  ماضی کی باہوں میں جھولتی صدیوں کی کتھا نے آواز دے کر روک لیا مجھے بس دامن سے لپٹ گئی۔ کبھی ہندوستان کی گھپاوں میں انگڑائیاں لیتی گوپیوں کی شوخ پھبن اپنی اور کھینچتی تو کبھی عرب کے ریگزاروں میں ناقہ_لیلی کی صدا سماعتوں کو اپنی طرف بلاتی۔  کبھی منصور حلاج کی دار پر کھچی نعش کے چہرے کی نویلی مسکان دیوانہ کرتی’  کبھی سرمد کی کھچتی کھال کا کرب دل گرفتہ کردیتا ۔  کبھی طارق بن زیاد کی جلتی کشتیوں کے شعلوں میں پورا اندلس دکھائی پڑتا۔ کبھی مغل محلات کی غلام گردشوں میں  تیرتی مکار سرگوشیاں صاف سنائی دینے لگتیں ۔کبھی سکندر ‘کبھی دارا’  کبھی رضیہ سلطان ۔’کبھی نور_جہاں’  اکبر ‘کھوڑے تیر ‘ تبر دھواں’ دمامے’ چیخیں میدان_جنگ ‘ زین سے گرتے جوان’ واسکوڈے گاما کی سفری سعوبتوں کا حسن ‘ تجسس۔ کوہ_کاف کی  کتا گاڑی پر سفید براق برفیلے میدانوں کا سفر’کالی داس’ شکنتلا’ حافظ ‘ میر اور یہ لیجئے مسقبل کا ان دیکھا ڈرامہ جس کے سب کرداروں نے ایسی دھات کے ملبوس زیب_تن کر رکھے ہیں جنھیں دھونے کی حاجت ہی نہیں انھوں نے اپنے علم اور سائنسی ایجادات و اختراعات کے بل  پر موت کو شکست دے دی ہے۔  اناج کی جگہ خوراک کے کیپسول پھانکتے ہیں چہروں سے مسکان غائب ہے  بچوں کی پیدائش کو ختم کیا جا چکا ہے سو تمام مرد و زن صرف جینے کا حظ آٹھانے کی خواہش میں بوڑھی دنیا اور بےکار زندگی سے اکتائے ہوئے  خوفناک یکسانیت سے نجات دلانے والی موت سے بھی محروم ہو چکے ہیں ۔ یہ کامران ادم زاد زمانے  گزرے موت کو موت کے  گھاٹ آتار چکے ہیں۔ ۔اور۔۔۔ اور اب  میری چھوٹی سی کھوپڑی درد کرنے لگی ہے۔ ہواوں کی سرسراہٹ ہاتھ کھینچتی ہے مگر میری آنکھیں مسلسل ذہنی مسافرت سے تھکی موندنے لگی ہیں ۔اور میں سرمئی بادلوں پر سوار دور بہت دور  چلی جا رہی ہوں۔میں نے نماز پڑھنا سیکھی تو تہجد بھی پڑھنے لگی( پوری نہیں بس بابا اور باجی  کے  ساتھ کبھی دو رکعت پڑھ لی اور کبھی صرف جائے نماز پر بیٹھ رہی)۔ مگر ہر نماز میں واحد  دعا یہی رہی ۔مجھے میری اماں دکھلا  مولا۔۔۔۔عشآ ہو چکی تو افراد_خانہ سب صحن میں اپنی اپنی چارپائیوں پر سو  رہے۔  مگر مجھے آج اللہ سائیں  سے حتمی اور دو ٹوک بات کرنا تھی۔ رات کے سناٹے میں اللہ سےشکوہ کرنا  یوں بھی سوکھا تھا کہ اس سمے کوئی دوسری آواز’ کوئی کھٹکا بندہ و رب کے مکالمے میں  مخل نہیں ہو سکتا تھا ۔میں نے جائے نماز بچھائی ۔ دورکعت نماز نفل کی نیت باندھی ۔زبان قرانی آیات تلاوت کرنے لگی اور جسم رکوع و سجود۔  مگر دل خدا سے الجھتے ہوئے محو_کلام تھا ۔ تو۔۔ کیسا اللہ سائیں  ہے؟ میں مانگتے مانگتے اتنی بڑی ہو گئی ہوں اور تو ہے کہ  اماں ہی نہیں دکھاتا۔۔۔؟ اگر آج اماں نظر نہ آئی تو تیری ‘میری کٹی۔ آج کے بعد میں تجھ سے نہیں بولوں گی۔اور تو بھی  بات مت کرنا مجھ سے۔ ۔۔۔اس گفتگو کے دوران نجانے کیوں  بن بلائے اشک پلکوں  کے رستے عارض پر لڑھکتے ہی چلے گئے تھے۔ ابھی میں پہلا سلام  پورا بھی نہ پھیر پائی تھی کہ بہت میٹھی ‘ممتا میں ڈوبی آواز۔۔  کان پڑی ۔” جی اماں”؟ (سرائیکی وسیب میں مائیں بجوں کو اسی طرح اماں کہہ کر مخاطب کرتی ہیں )  دوسرا سلام پھیرے بغیر بے اخیتار میرا  سر ۔۔۔ مکینیکل انداز میں آواز  کی سمت داہنی   طرف مڑ گیا۔ شکل تو نظر نہیں آئی اور نہ ہی  پورا جسم بھی نظر  پڑا ۔ صرف سوالیہ انداز میں میری طرف آٹھا ہوا ہاتھ اور سفید براق کفن میں لپٹا اک  ہیولا سا دکھائی دیا۔ میری جانب بڑھتا ہاتھ زندہ تھا۔۔ نہ وہ ہیولا۔۔۔۔ اس کی کلائی میں لٹکتی مرجھائی چنبیلی کی باس میں تیز کافور کی خوشبو خلط ملط سی  میرے ننھے سے نتھوں پر حملہ آور ہو گئی اور میں چکرا کر گر گئی۔ صبح گھر والوں نے جائے نماز سے  آٹھایاتو پورا بدن بخارمیں  تپ رہا تھا ۔پندرہ دن بعد طبعیت بحال ہوئی تو اماں سے ملنے کی خواہش  دل کے اندر کہیں گہرائیوں میں  سہم کر سمٹ رہی۔ سوچ ‘خیال’ احساس ‘ سب منجمد ہو کر رہ گئے۔ دعا نے دم توڑا تو نماز سے دوستی کمزور پڑنے  لگی کہ نماز پڑھوں تو کیا مانگوں؟ ۔مجھے اب کچھ نہیں چاہیئے تھا۔ دعا والی ہتھیلیاں بےمراد چٹی پڑ چکی  تھیں ۔دعا والے سارے حرف بھول چکے تھے کچھ یاد نہ رہا ۔۔۔نہ آرزو۔ ۔۔ نہ خواہش_آرزو۔۔۔۔۔

۔ماہ_رمضان کی اکیسویں تھی۔  باقی مسلمانوں کی طرح بابا سمیت سب بہن بھائی “طاق” راتوں میں شب_قدر کو تلاشنے کی آس میں عبادت کئے جاتے تھے۔ صرف میں چھت پر بیٹھی کہانی “زندہ لاشیں” پڑھ رہی تھی۔ باجی نے آکر کہا چلو تم بھی کچھ پڑھ لو۔ نہیں پڑھتی۔ کیوں ؟ وہی پڑھیں نا ۔۔جن سے اللہ میاں کو محبت ہے۔  اللہ ہم سے بھی محبت کرتے ہیں ۔ ۔پگلی ۔۔ وہ محبت سے بولیں۔۔۔۔ نہیں کرتے۔۔ میں نے زور دے کر کہا۔۔۔۔ باجی مجھے میرے حال پر چھوڑ کر دوبارہ عبادت میں مشغول  ہو گئیں۔ رات کے دو بجے  بیٹری جلائے  میں کہانی میں مگن تھی کہ اک جھباکے سے روشنی اتری اورسارے میں پھیل گئی  میں پردوں  کی دیوار پر چڑھ کر یہ اندازہ کرنے لگی کہ کوئی ستارہ تو نہیں ٹوٹا ہے ؟۔اگر ستارہ ٹوٹا ہے تو آگ لگنی چاہیئے۔۔ مگر اتنی ٹھنڈی سبزی مائل دودھیا روشنی جو آسمان سے جوان گہرے سبز  سریں کے تنے کے نیچے تک جاتی تھی گھنیرا سریں پورے کا پورا حسین و دلاآویز سا ہو چلا تھا۔ ۔مگر پھر اک دم کسی خیال نے انگڑائی لی اور میں بھاگتی ہوئی سیڑھیاں آترتی چیخنے لگی شب_قدر ‘شب_قدر۔۔۔۔ نیچے والے اوپر دوڑتے آئے آگے آگے خالد تھا اس نے بھی یہ روشنی دیکھی مگر دوسرے اس سے محروم رہے۔ کہ ان کے آنے سے پہلے ہی روشنی غائب ہو گئی تھی۔ یہ واقعی شب_قدر تھی یا کچھ اور آج تک یہ معمہ  ناقابل_فہم  ہی ہے میرے لیے۔۔۔۔
شاہدہ ‘ ندیم اور میں رنگوں اور لکیروں سے کھیلنے کا ہنر لے کر دنیا میں وارد ہوئےتھے۔  وہ دونوں کمال پوٹریٹ بناتے اور مجھے خوف میں سنسناتی’ منہدم ہوتی تاریخی عمارات پسند تھیں سو  میر تقی میر کی پوٹریٹ بنانے کے علاوہ میں نے ہمیشہ مقابر ‘قلعہ جات’  مساجد مندر اور کلیسا ہی سپرد_قرطاس کئے۔ لش لش کرتی یہ کاغذی عمارتیں اور شاہدہ کے بنائے پوٹریٹ کبھی تین اور کبھی پانچ روپےمیں  سکول فیلوز کے ہاں بک جاتے۔ اور یوں میں اور شاہدہ  کمسنی میں ہی معاشی طور پر خود کفیل ہو گئے تھے۔ کھٹ مٹھڑا سا موسم تھا۔ نہ سردی اور نہ ہی تن کے تاگوں کو پگھلاتی گرمی۔ بس نویلی ٹھنڈی پون کے دھیمے دھیمے ہلکوروں میں روشن کھلتی ہوئی صبحوں ‘ بدن کو برماتی چمکیلی دوپہروں کے دن تھے ۔۔۔شاید مارچ کا مہینہ تھا۔ ۔۔۔سال کا  مدھر موسم کہ جس میں مجھ ایسی چنچل چڑیاں ‘فاختائیں اور مورنیاں اپنے اپنے مقام پر پورے پر پھیلائے فضا کی وسعتوں کو چھو کر محسوس کرنے کو نرمل کومل سی آڑانیں بھرتی اور ناچتی پھرتی ہیں ۔ ہاں یہی رت تھی جب بابا ہمیں وہوا  اپنے کسی  پگڑی بدل دوست کے ہاں لے کر جا رہے تھے۔ کراچی سے لگژری بسیں جو پشاور جاتی تھیں ہم اس میں سوار تھے ۔بس اڈے پر سواریوں کے انتظار میں کھڑی تھی ۔ لوگوں کے ہجوم میں اک شخص بڑے عجیب انداز سے ہر زنانی سواری کو  بس تلک اپنی لال لال آنکھوں سے گھورتا ‘ باربار پیک تھوکتا گردن پیچھے پھینک کر  اپنی ٹانگوں کے درمیاں عجب بھونڈے انداز میں کچھ اس طرح سے کھجلاتا کہ اس کا  ستر شلوار کے پردے میں بے لباسی کی ہر حد سے باہر ہو جاتا۔ پانچویں جماعت میں پڑھنے والے ہر بچے اور بچی کے لیے  ایسی تمام حرکتیں حیرت و اسجاب کا باعث ہوا کرتی ہیں ۔ میرا بچگانہ تجسس بھی مسلسل اس کو دیکھنے اور سمجھنے  میں منہمک ۔تھا۔مگر گاہے بگاہے  ارد گرد کے منظر پر بھی اک اچٹتی سی نظر ڈال لیتا۔ سامنے  تندور پر تباخی روٹیاں لگاتے ہوئے اپنی پسینے سے شرابور  بالوں بھری بغل میں زور سے کجھلاتا اور پھر آٹے میں ہاتھ ڈال  دیتا۔ دیوار کے سائے میں بیٹھے پکھی واسوں کے خاندان کے دو بچوں کی ناک مسلسل بہتی تھی اور وہ اس پر زبان چلا کر مسلسل اس کا ذائقہ چکھتے تھے۔ کچی گری’ سوہن حلوہ ‘ جوس اور جامن دس روپے کا پیکٹ بیچنے والوں کے’ ہوکے ‘کان پھاڑے دیتے تھے کہ اچانک  وہ ” کھجل مراد”   جو عورتوں اور بچیوں کو تاڑنے کی ڈیوٹی کر رہا تھا میری طرف متوجہ ہو گیا  ۔رانوں کے پیچ کھلاتے ہوئے جونہی اس نے  مجھے ایک آنکھ ماری ‘ میں نے اسے دو آنکھیں مار دیں ۔ کہ میں  نقد بدلہ چکانے میں ہمیشہ سے  شیر بچہ رہی ہوں۔اس نے نجانے کیا سمجھا کہ بس کے پاس میری کھڑکی پر  آکر کوئی ایسی بات کی جس کے مجھے معنی تو سمجھ نہ آسکے مگر یہ یقین ہو گیا کہ اس نے کوئی گالی بکی ہے۔میں نے آو دیکھا نہ تاو بائیں ہاتھ کی دو انگلیوں کو خاص انداز میں جوڑ کر اپنے تیز ناخن اس طرح اس کی پیشانی کے کھال میں آتارے کہ اس کے ماتھے کی ہڈی تلک میں جا گھسے۔ جیسے ہی  میں نے اپنا ہاتھ واپس کھینچا اس کے ماتھے سے خون کی تیز  دھاریں بہی نکلیں ۔پاس کھڑے لوگوں نے جو یہ منظر دیکھا تو اسے لاتیں اور گھونسے مارتے ہوئے نجانے کدھر لے گئے۔ اتنے تک بابا کھانے پینے کا سامان لے کر واپس آگئے اور پوچھا کیا ہوا تھا ؟ بابا اس بندے نے مجھے ایک آنکھ ماری تو میں نے اس کو دو آنکھیں مار دیں ۔ کیوں بابا دبے دبے غصے میں بولے۔ جو مجھے ایک آنکھ مارے گا میں اس کو دو آنکھیں ماروں گی ۔ اور جو مجھے گالی بکے گا میں اپنے مضبوط ناخنوں سے  اس کا منہ چھیل دوں گی ہاں ۔ جب میں کسی کو پریشان نہیں کرتی تو کوئی مجھے کیوں پریشان کرے۔

بٹوارا ہو گیا۔ بابا نے زمین کا وہ حصہ اپنے پاس رکھا جو زیادہ تر بنجر اور ناکارہ تھی ۔زرخیز زرعی رقبہ اپنے بھائیوں میں تقسیم کر دیا۔یہ اس قبیلے  کی مروجہ محبت اور ایثار کی آخری مثال تھی۔اس کے بعد جو رہا سب انھیرا تھا۔ غرض کی نرتکی چاروں اور بھاو بتاتی پھرتی جبکہ ۔ باہمی محبت و مودت کے سارے پرند انجانی وادیوں کی طرف آڑان بھر گئے تھے۔ باقی جو رہا وہ ناقابل_بیان تھا۔ صرف یہی نہیں پوری حویلی کی شاندار مملکت جس کے قوائد اور اخلاقیات میری ماں ‘چچیوں نے کمال برداشت اور قربانی کی بنیادوں پر وضع کیے تھے ۔ اس وقت انتشار اور بغاوت کی آگ میں جل بجھی۔ جب اس میں پہلی دیوار آٹھائی گئی۔ اب گرمیوں میں بستی جانے کی ترنگ  باقی نہ رہی تھی۔جیسے جیسے  ہم  بڑے ہوتے گئے ٹوٹا زمین دا بیچ کر گھریلو  اور تعلیمی اخراجات پورے کرنا بابا کے لیے ناممکنات کی حد تک مشکل ہو گیا تھا ۔  علاقے کے دبئی پلٹ لوگ بھلا کب تک زمینداروں کی اراضی خریدتے۔ان کی قوت_خرید بھی  واجبی سی تھی ۔ ایسے میں مسز انصار (اس زمانے کی ڈائریکٹر تعلیمات) کی دوستی بابا کے کام آگئی ۔باجی نے جونہی آٹھویں جماعت پاس کی انھوں نے باجی کو اک مضافاتی مڈل سکول میں  پی ٹی سی ٹیچر تعینات کر دیا۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ ناصرف ٹوٹا زمین دا بیچنے کی کھیکڑ سے چھٹکارا ملا بلکہ اتنا سہارا بھی ہوا کہ بچ رہنے والی زمیں پر کھیتی باڑی کر کے اناج پیدا کرنے کی سبیل پیدا ہو گئی ۔معاشی مسائل سے قدرے نجات ملی تو رشتے وقت کی دھند میں دھندلاتے چلے گئے۔  حویلی کے وسیع و عریض صحن میں سے دودھ رڑکنے کی سندر صدائیں  گھٹ کر مر گیئں ۔ جامن کے شاخچوں پر ہمکتے جھولے ویران ہو گئے ۔ چوڑے والی باہوں نے سونے کے کنگن کیا پہنے کہ  غرض اور لوبھ کی اندھی چکری نے سادگی و خلوص  کی تال پر ناچتی بھولی جٹییوں نے خونخوار  بیبیوں کا زرتاج پلو سروں پر ٹانک لیا۔اور یوں اس خاندان میں غرور و تمکنت کے پھنیئر سانپ نے اپنا پھن پھیلا لیا۔ وہ ادبی و فنی محافل آجڑ گئیں جو بستی کھوہاوڑ کی شناخت اور مان تھیں مردان خانے کا وہ  پنڈال راکھ کا ڈھیر ہوا جہاں سیف الملوک گانے والوں کے ساتھ طبلہ اور بانسری پر متوالے سنگت کرتے تھے۔ چاچو دوست محمد معروف گلو کار پٹھانے خان کے ساتھ کئی موسیقی کی محافل میں اپنی گائیکی کی دھاک بٹھا چکے تھے ۔مگر باقائدہ طور پر سنگیت کو  پیشہ بنانے یا عوام میں فن کے مظاہرے کی اجازت انھیں  ان کے والد صاحب سے کبھی  نہ مل سکی  کہ اک خاندانی وڈیرے کا بیٹا بھلا مراثی کیونکر ہو سکتا تھا ۔اور یوں ناک آکھڑنے کے  اندیشہ ہائے _ستم طراز نے اک بے پناہ سریلی و سندر  آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔  رات کی محافل میں قصہ گو جہاں باغ و بہار اور رانی کیتکی سناتے وہاں گلو کار مرزا صاحباں اور ہیر رانجھا گاتے  گاتے ۔ بھانگ بھرے بڑے بڑے پیتل کے گلاس   سلیقے اور تہذیب کے ساتھ باری باری چڑھاتے جاتے۔ان محافل میں بچیوں کو بیٹھنے کی اجازت نہ تھی مگر بھینسوں کے باڑے کی چھت پر لیٹ کر ہم سن بھی سکتے تھے اور نظارا بھی کر لیتے تھے۔ روزہ کشائی پیٹ بھرے ماں باپ کے بچوں کی عیاشی اور والدین کی شہرت ہوا کرتی  ہے ۔بن ماں کے بچے تو سدا کے روزہ دار ہوتے ہیں ۔سو آن کے لیے ایسے اللے تللے لازم نہیں ہوتے ۔ روزہ کشائی والے بچے شاید چھ سات برس کی عمر میں روزہ شروع کرتے ہوں گے مگر ہم بابا کے ساتھ ہی سحری کے وقت ناشتہ کر لیتے تھے۔تاکہ بعد میں ناشتہ بنانے کی کھیکھڑ ہی نہ رہے ۔ اک دن میں نے ضد لگا لی بابا  مجھے  بھی روزے کی نیت پڑھائیں میں بھی اصلی والا روزہ رکھوں گی ۔روز روز آپ ہمیں چرکو روزہ رکھواتے ہیں آج میں بھی آپ والا روزہ رکھوں گی  ۔بابا کو ڈر تھا کمسنی کی وجہ سے کہیں میں روزہ توڑ نہ بیٹھوں اس لیے انھوں نے بڑی چالاکی سے اصل نیت پڑھانے کی بجائے نقلی نیت پڑھا دی۔ اور میں نے خوشی خوشی اپنا روزہ الماری کی دراز میں رکھ کر تالہ لگا دیا۔ سارا دن کھیلتی رہی مگر مغرب کے قریب لگتا تھا میرا پیٹ ریڑھ کی ہڈی سے جا لگا  ہے ۔ چلتے ہوئے چکر آنے لگے تھے۔ چپ کر کے پلنگ پر جا بیٹھی۔ اچانک میری انگلی سے کوئی چھوٹی سی چیز ٹکرائی کیا دیکھتی ہوں بغیر چھلکے کا اک گول گول چمکیلا پیلا سا چنے کا  دانہ پڑا ہے ۔ میں نے اس کو انگوٹھے اور انگشت_شہادت  کے درمیان داب لیا ۔کچھ دیر گھماتی رہی پھر مٹھی میں بند کر لیا۔  مٹھی کو منہ کے قریب لے گئی تو خیال آیا ۔اللہ میاں دیکھ رہے ہیں ۔ مٹھی نیچے کر لی ۔ اب بھوک سے معدہ الٹنے پلٹنے لگا تھا ۔لگتا تھا کہ قے ہونے والی ہے۔ گھر سے باہر نکل آئی ۔ دروازے کے سامنے نیم کے موٹے تنے سے ٹیک لگا لی چھوٹی سی ہتھیلی کو کھولا گلابی ہتھیلی پر چم چم کرتا دانہ بہت سندر لگا۔ ناک سے قریب دانہ لا کر اک زور دار سانس کھینچی تو مست کرنے والی چنے کی باس نے بھوک دو چند کر دی۔ جی چاہا نیم کے تنے کے پیچھے چھپ کر اسے منہ میں ڈال لوں اور قریب تھا کہ ۔۔۔۔۔مگر پیٹھ پر تو تنا نہیں تھا اور اللہ پیٹھ کے پیچھے سے دیکھ رہے تھے۔ ہولے ہولے محلے کی مسجد کی طرف چل دی دروازے میں کھڑی تھی کہ موذن نے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا بچی طبعیت تو ٹھیک ہے ؟ میں نے  اثبات میں سر ہلا دیا ۔ مسکرا کر بولے روزہ ہے۔ پھر چھوٹا سا سر ہلا ۔ ارے میرا بچہ بس تھوڑی دیر میں اذان دیتا ہوں ۔ تھوڑا اور صبر میری بچی۔۔۔۔ میں چھوٹے چھوٹے قدموں سے گھر کی طرف جانے لگی سامنے  پھلوں کی خالی ریڑھی کھڑی تھی میں اس کے نیچے پہیوں میں جا بیٹھی مٹھی کھولی مگر ریڑھی کے نیچے صرف سر چھپتا تھا دائیں بائیں ‘ آگے پیچھے سے تو سب دکھتا تھا۔ اب میں اللہ سے چھپوں تو کہاں چھپوں ہر جگہ تو وہ دیکھ لیتا ہے۔۔۔۔میں وہاں سے بھی نکل آئی سیدھی گھر پہنچی پلنگ پر گر گئی ۔ اور سوچا آنکھیں بند کر لوں تو اللہ میاں مجھے نظر نہیں آئیں گے۔ تو چپکے سے دانہ کھا لوں گی اتنا چھوٹا سا دانہ ہی تو ہے اللہ میاں کو کیسے دکھے گا۔۔۔؟۔لہذا زور سے دونوں آنکھیں بند کیں مٹھی منہ پر رکھی اور۔۔۔اور بابا بہت پیار سے گودی میں لے کر میرے منہ میں شربت چمچ سے ڈال رہے تھے۔ باجی نے میری ہتھیلیوں کو مسلنے کے لیے جیسے ہی میرا داہنہ ہاتھ کھولا سندر پیلا دانہ فرش پر جا گرا ۔ روزہ افطار ہو چکا تھا میٹھے پانی کی شیرینی نے میری جسمانی قوت بحال کر دی تھی ۔میں نے جلدی سے چھلانگ لگائی اور اپنا دانہ آٹھاکر فورآ اپنے منہ میں ڈال لیا۔ اللہ حیران نظروں سے دیکھتا جاتا تھا مسکاتا جاتا تھا۔اللہ میاں خود روزہ کیوں نہیں رکھتے۔۔۔،؟

شام گھنیرے بادلوں میں سیہ رات سے زیادہ اندھیری ہو چکی تھی۔ موسلادھار بارش کی بے رحم تڑاتڑ  ماحول کو آسیب زدہ کیے دیتی تھی ۔ چھوٹے سے گڑیا کے گھروندے ایسے گھر کے برامدے میں دو چارپائیوں پر چھ نفوس دم بخود بیٹھے باد و باراں کی مہیب آوازوں سے سہمے ہوئے اک دوسرے سے چمٹنے کی حد تک جڑے بیٹھے تھے کہ اچانک اسمانی بجلی خوفناک انداز میں  کڑکی۔ آنکھیں چندھیا گئیں ۔ دل دھل کر رہ گئے باجی نے زقند بھری اور چارپائی کے نیچے گھس گئیں ان کے تتبع میں شاہدہ اور چاند بی بی بھی چارپائی کے نیچے سما چکی تھیں  ۔محفوظ ہونے کے لیے میں نے جونہی  بدن کو موڑنے کی کوشش کی میری دونوں ٹانگوں سے دو ننھے ننھے بدن لپٹ گئے۔ندیم اور خالد (چھوٹے بھائی) معصوم جسموں کا نرم لرزتا مان بھرا گداز مجھ سے  زبان_ بے زبانی میں تحفظ کا تقاضا کر رہا تھا ۔اب اپنی جان بچانے کا خیال بھی حرام ہو چکا تھا ۔ سو میں نے  دونوں کے سروں کو مضبوطی سے اپنی ٹانگوں سے لپٹا لیا اورتن کر کھڑی ہو گئی۔ بجلی کی خوفناک کڑک اور بارش کی  تیز کٹار ایسی دھارا  کا تسلسل اگرچہ کبھی کبھی آنکھیں موند لینے پر مجبور کر دیتا تھا۔ مگر میں چٹان کی طرح ایستادہ  تھی ۔بس وہی اک فیصلہ کن لمحہ تھا جب میں نے اپنے اندر کے خوف کو موت کے گھاٹ آتار دیا ۔ اس کے بعد زندگی اور وقت ‘ حالات اور ماحول مجھے کسی بھی روپ میں خوفزدہ کرنے میں ہمیشہ  ناکام رہے۔ میں زندگی ‘ تقدیر اور وقت کے بے رحم بہاو کے مقابل آن کھڑی تھی۔ اچانک ہی میں نے علم_بغاوت بلند کر دیا تھا اور پھر تن تنہا لڑتی چلی گئی۔ بوسیدہ روایتوں’  منفی رواجوں ‘غلط سماجی بندھنوں ‘مکار سیاسی ہتھکنڈوں اور انمل’ لایعنی معاشرتی قاعدوں کے خلاف۔ میرے بازو ‘میری پیشانی زخمو زخمی تھے۔ میرا پورا پنڈا  ۔۔نیلو نیل تھا ۔ مگر میری تلوار کے ہتھے پر میری انگلیوں کی گرفت مضبوط اور میرا ہر وار کاری تھا۔ میرے دائیں بائیں صرف ہوا چیختی تھی اور میری پیٹھ ننگی تھی۔ مگر میں دیوانہ وار آگے اور آگے بڑھتی جاتی تھی۔
جانے کتنی بہاریں اور خزاٸیں بیت گیٸں۔ وقت کے بہاو نے چہرے مہرے اور قدوقامت کو عجب دلکشی اور کشش بانٹنا شروع کر دی تھی۔ جبکہ یہی دلکشی و جاذبیت میری اَزادی کے لیے سمِ قاتل  ہوتی جاتی تھی۔ باہر نہیں جانا، اونچی اَواز میں مت بولو گلی میں اَواز جاٸے گی۔ لڑکوں سے بات نہیں کرنی ۔ کیوں نہیں کرنی بھٸ  ؟ میں ان لڑکوں سے زیادہ بہادر اور بہترین لڑاکا بچہ ہوں ۔ان تمام پابندیوں میں میری روح مرجھاتی جاتی تھی۔ مجھے زیادہ اَزادی کی ضروت تو نہ تھی بس کھلی فضاوں میں دونوں بازو پھیلاٸے نٹ کھٹ چنچل ہوا کے سنگ اڑتے چلے جانے کی ننھی سی خوشی ہی تو درکار تھی۔میں نے اس بے رحم سماج ، معاشرے اور مذہب سے بس کھل کے مسکرانے کی اگیا ہی تو مانگی تھی۔ میں نے کب حکمرانی چاہی تھی۔؟ کس نے کہہ دیا کہ مجھے مرد کے مقابل اَنا ہے؟ مرد سے راج پاٹ سنگھاسن چھین لینے کا میرا  کوٸی ارادہ نہ تھا۔مجھے تو بس اپنے بھولپن، معصومیت اور من مرضی سمیت گلشن کی کیاری کیاری کے سنگ اک اک ڈال پر پات پات کی انگلی پکڑے چہچہانے، سندر گیت گانے کی اَزادی و شہزادگی  کی ضرورت تھی۔ صرف اپنا ہنر و قابلیت ثابت کرنے کے لیے غیر مشروط و پر وقار اجازت نامہ چاہیے تھا بس ۔یہ تو مرد کے ذہن کا خناس تھا کہ عورت کا راستہ روکو، اس کی ذات وصفات پر شب خون مارو ، اسے باندی بناو ، داشتہ ہی رکھو اور حاتم کی قبر پر لات مارنے کو من چاہیٕے تو بیوی ( بچے جننے کی مشین ) بنا کر ممنونِ احسان کر دو۔ کہ تسکینِ کام و دہن کے تقاضوں کو پورا کرنے کی سیاست کا تیر بہدف پینترا یہ ہی تو تھا۔ شناخت و جہد للبقا کا تقاضا تھا کہ بے بسی و مقہوری کے طوق کو توڑ کر بہ امر مجبوری مرد کے مقابل کھڑا ہوا جاٸے۔  اب اس جنگ میں جو بھی ہو کم ہے مرد کو بھوگنا تو ہو گا سو بھوگتے بھوگتے کبھی پشیمان ہوگا ۔کبھی حیران ہو کر بہتان باندھے گا ۔۔۔۔۔مگر اب تیر کمان سے نکل چکا۔ خیر میں کہہ رہی تھی کہ  میری دنیا گھر کی چار دیواری تک محدود ہو کر رہ گٸی۔ اب میرا واحد مشغلہ چھت کے  پردوں پر جھکے سریں اور پیپل کے درختوں پر مقیم چڑیوں کے سنگیت سے محظوظ ہونا اور ہوا کے ہلاروں پر بجتی سبز پتاور کی پاٸل کی جھنکار سےدل بہلانا تھا۔ خزاں کی بے درد ہوا میری اَنکھوں کے سامنے زرد پتوں کو ڈالیوں سے نوچ کر اپنے سنگ اُڑا لے جا رہی  اور زمین پر پٹختی جاتی تھی۔ گلی کے راہگیر جب زرد پتوں کی چادر پر ڈگ بھرتے  تو سوکھے پتوں کے من سے اک بیکل سی صدا بلند ہوتی۔ یہ صدا میرے ننھے سے دل کو چیرتی چلی جاتی تھی اور میں اپنی پہلی  باقاٸدہ نظم  ”بوڑھاپتہ“ لکھتی جاتی تھی۔شاید میں اس وقت ساتویں میں پروموٹ ہوا چاہتی تھی

چاند سے عشق پیداٸشی تھا شاید؟٠ سرمٸی پہاڑ بھی زبانِ بے زبانی سے مجھے اپنی اور بلاتے ، صحرا کی بے رحم گرم وسعتیں تو کہیں میرے دل میں ہی ہلکورے لیتی تھیں اور سمندر کی پّر ہیبت گونج و مسنانہ وار امڈتی بڑھتی پر شکوہ لہریں ان دیکھی دنیاوں کے اسرار کھولنے کی دعوت دیتی تھیں٠ فطرت کے ساتھ میرا رشتہ بہت بھر پور اور اٹوٹ تھا٠ میرے سارے علم و احساس کی بنیاد میں فطرت کی کنکریٹ اور بدلتے موسموں کے رنگوں سے ابھرتے ڈوبتے مناظر کا مسالہ بھرا تھا٠ جس کی وجہ سے میری ذات و شخصیت میں اک خأص قسم کی پختگی ، رنگا رنگی، تجسس، شوخی و متانت کی امیزش والی قطیعت اور حتمی پن تھا جو وقت کی منہ زور تخریب و تعمیر کے مقابل یوں ایستادہ تھا کہ پسپاٸی و شکست دونوں اس کے مقابل زچ ہو ٠٠ہو جاتے٠قدرت اگے جا کر مجھے اَزمانے والی تھی٠٠شاید٠٠٠٠اس لیے مرے مزاج و عمل اور سوچ کی دھارا میں مضبوطی و قطعیت کے عناصر جمع کرتی جاتی تھی٠وقت اپنی رفتار سے محوِ خرام تھا جاڑے کے دن تھے ہلکی ہلکی ہوا ہڈیوں میں گدگداہٹ پیدا کرتی تھی چاند پورا کھلا تھا ٠شب کے اسرار عجب کہانی کہہ رہے تھے ٠ایسے میں بستر پر سونا میرے لیے ناممکن تھا٠ چپل پاوں میں ڈالی اور حویلی جو اب بٹ چکی تھی سے باہر اَ گٸی پگڈنڈی پر لمبی گھاس اگی تھی جو سفر کھوٹا کرتی تھی ٠ میری نظر چاند پر تھی٠ میں رکتی تو وہ رک جاتا میں چلتی تو وہ بھی مسکرا کر ساتھ ہو لیتا٠ ہم دونوں زبانِ خامشی سے محوِ کلام تھے٠ میں نے سارے قصے اس کو سنا دیٸے  اور وہ  بڑے غور سے  مجھے تکتا ، مسکاتا جاتا تھا٠ کچھ خواب تھے ، کچھ سوال، کچھ حیرتیں اور کچھ شکوے سب کچھ اس پورن ماشی کے چاند نے دل کے کانوں سے  سنے، مشورے دیٸے، دل برمایا اور اس سے پہلے کہ میں کوٸی گیت چھیڑتی پھوپھو نے میری کلاٸی پر چھپٹا مارا اور گھسیٹتی ہوٸی حویلی لے چلیں٠ تم ساتویں جماعت میں ہو ، بڑی ہو گٸی ہو ٠ ہمارے ہاں تم جتنی بچیأں برقعہ اورڑھتی ہیں ٠ مگر کیوں٠٠٠٠؟ میں چیخی٠٠٠ بیٹا ہماے مذہب میں ہے نا٠٠٠٠٠ وہ پچکارتے ہوٸے بولیں ٠٠٠اور لڑکے پردہ کیوں نہیں کرتے؟میں نے خفگی سے پوچھا وہ لڑکے ہیں نا٠ میں بھی لڑکا بنوں گی پردہ نہیں کروں گی وہ ہنس پڑیں ٠٠٠٠٠ لڑکیاں لڑکا نہیں بن سکتیں اور لڑکے کبھی لڑکی نہیں بنتے٠ تو پھر وہ بھی پردہ کریں٠ میں نے چڑ کر کہا ٠کیوں پھوپھو مسکراٸیں ٠ تاکہ وہ بھی بڑے بڑے میدان ، دریا ،سمندر ،صحرا اور چاند نہ دیکھ سکیں میری انکھیں ڈبڈبا اَٸی تھیں ٠ پھوپھو نے بے اختیار مجھے اپنی چھاتی میں چھپا لیا اور خود کلامی کے سے انداز  میں بولیں یہاں لڑکیوں کے ساتھ کیا نہ ہوا  تو کیا جانے میری بچی٠٠٠٠٠ کیا ہوا پھوپھو٠٠؟ ابھی چھوٹی ہو تم ٠٠٠٠نہیں پھوپھو مجھے بتاٸیں ورنہ میں برقعہ نہیں اوڑھوں گی٠٠٠٠٠٠اور وہ خالی نظروں سے میرے چہرے پر نجانے کیا دیکھنے لگیں٠ بولیں نا پھوپھو٠٠٠٠٠
ماضی کی راکھ کریدنا بہت درد ناک عمل ہے ٠اس سے انگلیاں ہی نہیں جل بجھتیں ، دل کی ویراں سراٸے میں بھی تنہاٸی کے بھوت کچھ اس طرح چنگھاڑتے ہیں کہ نامرادی کی دیمک لگے دل کے  در و دیوار حسرت کی دھوڑ میں خوابوں کو کفنا دیتے ہیں٠ ایسے میں قلم کی روشناٸی سے زندگی لکھنا قیامت جھیلنے کے مترادف ہے٠ پچھلے کٸی دنوں سے میں اسی خوف میں مبتلا تھی کہ راکھ کریدی تو زخم ننگے ہو جاٸیں گے، زخموں سے کھرنڈ اکھیڑا تو درد ہو گا٠ نامور سیاسی و ادبی لوگوں نے جب جب اَپ بیتی لکھی تو  بڑی سہولت سے  سیاسی جدوجہد کے قصوں،  ساتھیوں کے جزبہ و عمل کی داستانوں اور حریت کی چکا چوند میں اپنا اپ ملفوف کر گٸے جبکہ ادبی شخصیات نے اکثر و پیشتر ادبی تحریکوں ، شعرا و ادبا کی باہیمی چپقلشوں، مشاعروں کی تفصیلات یا ہم مزاج احباب کی محافل کے تذکروں میں  اپنی ذات و زندگی کی خفتہ پرتوں کو پردہ پوش کر لیا٠ مگر میں نہ تو سیاسی فگر ہوں اور نہ ہی میدانِ ادب کا زیادہ روشن چاند سو میری کہانی میں درج بالا دونوں طریقہ ہاٸے خود پردگی ہرگز  جگہ نہیں   پا سکیں گے٠ مجھے تو میرا ذہن ،عمل اور دل پورے اخلاص کے ساتھ طشت از بام کرنا ہو گا اور یہ کارِ مشکل ہے٠ اس مشکل کام کا تیشہ سیدھا میرے دل پر وجے گا جس کی ضرب سے جانبر ہونا ناممکن نہ سہی مشکل تو ہے٠خیر جو ہو ، سو ہو٠٠٠ کھانے پینے کے حوالے سے میں بچپن ہی سے پرابلم چاٸلڈ رہی ہوں ناصرف کم کھاتی ہوں بلکہ وقت پر بھی نہیں کھاتی ٠ دسویں جماعت تک میں اپنے ہاتھ سے کھانا نہیں کھاتی تھی بابا کو کھلانا پڑتا تھا٠ ایک دن بابا کو بہت جلد کہیں باہر جانا تھا اور میں سکول کے لیے تیار ناشتے کی منتظر بیٹھی تھی٠ بابا بولے بیٹا مجھے جلدی ہے اَج تم خود کھا لو٠٠٠اب تو بڑا ہو گیا میرا بچہ بابا نے مسکہ لگایا ٠ جواب میں ٗ میں نے اپنے دونوں ہاتھ پیچھے کمر پر باندھ لیے اور بولی  بابا میرے تو ہاتھ ہی نہیں ہیں میں کیسے کھاوں٠٠٠٠؟  لکھنے کے علاوہ میں ہر کام باٸیں ہاتھ سے کرتی ہوں کھاتی بھی باٸیں ہاتھ سے تھی بچپن میں کسی نے توجہ نہ دی بڑے ہونے پر سختی سے داٸیں ہاتھ سے کھانے کی پابندی لگا دی گٸی٠ داٸیں ہاتھ سے نوالہ بناتے ہوٸے میرا ہاتھ  ، میری انگلیاں اور سب سے بڑھ کر میرا ذھن شدت سے تھک جاتا اور میں اکتا کے کھانا چھوڑ دیتی ٠اب بھی کھانا کھانا  مجھے دنیا کا مشکل ترین کام لگتا ہے٠مگر اب بابا نہیں ہیں جو فکر کریں کہ میں نے کھانا ادھورا چھوڑ دیا ہے
کالج ٹرپ ہیڈ تونسہ جا رہا تھا ٠ اساتذہ نے تمام طالبات کو صبح چار بجے کالج گراونڈ میں اکھٹا ہونے کی تاکید کی تھی ٠ تقریبآ پانچ بجے تک سب سٹوڈنس کالج پہنچ گٸیں ٠ کالج بس نے سب کو ڈیرہ ریلوے اسٹیشن پر اتارا تو ٹرین تیار ملی٠ پروفیسرز نے سب بچیوں کو بوگی میں سوار کرنے سے  پہلے گنا ٠ پھر اک قطار میں کھڑا کیا اور٠٠٠اور٠٠٠٠ گھٹا شدت سے برس پڑی٠ سوار ہوتے ہوتے سب لڑکیاں بھیگ چکی تھیں٠ جس بوگی میں ہماری فرسٹ اٸیر کی سٹوڈنٹس سوار ہوٸی تھیں وہاں دو لڑکے پہلے سے موجود تھے٠ مجھے کھڑکی کے ساتھ کی اک سیٹ ملی تو بے نیازی سے باہر دیکھتے ہوٸے لڑکیوں کے شوخ جملوں سے حظ آٹھاتی میں   مسکراتی چلی گٸی٠ لڑکیاں سیٹوں پر بیٹھنے کی بجاٸے لڑکوں کی طرف جھکی کھڑی کچھ زیادہ ہی شوخ ہو چلی تھیں٠ سب اپنی اپنی اداوں سے انھیں متوجہ کرنے کی کوشش میں باقاٸدہ طور پر  مکالمے کی پوڑھی  چڑھ چکی تھیں٠  دونوں لڑکوں  میں سے ایک  لڑکا برابر جواب دٸیے جاتا تھا اور ماحول زعفران زار ہوا جاتا تھا٠ بارش نے طوفان کی شکل اختیار کر لی تو  بارش کی تیز باڑ  کھڑکیوں کے رستے اندر گھستی چلی گٸی ٠  پانی کی مار سے بچنے کے لیےمیں نے اپنی کھڑکی کو بند کرنے کی کوشش شروع کی تو دوسری طرف لڑکوں نے بھی اس کارِ جلیلہ کو انجام دینے کے لیے پوری مردانگی کو میدان میں جھونک دیا ٠ لڑکیاں باقاٸدہ نعرے لگانے لگی تھیں ٠ وہ میرا حوصلہ یوں بڑھا رہی تھیں جیسے میدانِ جنگ میں خواتین اپنے سپاہییوں کے لیے دف بجا بجا کر رجز پڑھتی ہیں  ٠ اور ٠٠٠٠اور   پھر یہ معرکہ میں نے سر کر لیا ٠مردانگی ہار کر تھوتھنی لٹکاٸے بیٹھی تھی ٠ ٠٠٠اور٠٠٠٠٠ لڑکیوں کی نعرہ بازی میں بادلوں کی کڑک منہ چھپاتی پھرتی تھی٠ یونہی بے خیالی میں میری نظر جو ہارے ہوٸے سپاہیوں پر پڑی تو سانس تھم گٸی٠ دونوں لڑکوں میں سے ایک بلا شبہ مردانہ حسن و کشش کا اعلی ترین مرقع تھا٠ اوہ تو یہ ساری زلیخاٸیں اس یوسفِ ثانی کی جناب میں رقص کناں تھیں٠ میں نے سوچا٠ اسی لمحے اس  نے اک نظر میری طرف دیکھا اور دیکھتا چلا گیا٠ لڑکیاں بہت بدتمیز تھیں فورآ چیخیں یاد رکھیے محترم آپ ہماری ماہ لقا کو گھورنے کا حق نہیں رکھتے٠ ویسے بھی آپ ان سے ہارے ہوٸے ہیں٠ میں اک مرتبہ پھر باہر دیکھ رہی تھی٠ گاڑی رکی اور نوجوان گاڑی سے اترے سامنے جاکر اک ذرا سا رک کر٠٠٠ پیچھے کو مڑ ے٠٠٠٠ چنچل خامشی کی عینک سے اک مرتبہ میری اور٠٠٠ دیکھا ٠  یوسف ثانی کے لبوں پر ایسا ملکوتی شفاف اور ترو تازہ تبسم تھا جس کی نظیر آج تک نہیں مل سکی٠ قدرت کے اس شاہکار تبسم نے ذہن و خیال کی ساری وادیوں میں وہ بے انداز ترفع اور تراوٹ کی موج بڑھا دی جس کے سامنے کلیوں کی مسکان بھی ماند ہے اب تک ٠ بشری شوخی سے بولی اگر تمھیں اس سے محبت ہو جاٸے تو٠٠٠٠٠؟ نہیں ہو سکتی میں نے کمال سنجیدگی سے کہا ٠ کیوں٠٠٠٠٠٠؟ وہ حیرت زدہ تھی٠ ایسا اجلا ،کامل حسن عقیدت و عبودیت پیدا کرتا ہے عشق نہیں٠ ایسا حسن دیکھ کر خدا یاد آتا ہے ٠ایسے  حسن کی پوجا ہونی چاٸیے٠٠٠ ٠ عشق کے لیے زمینی حسن درکار ہوتا ہے٠٠٠ سکھی ی ی٠٠٠٠٠٠ تم کھبی میری سمجھ میں نہیں آ سکو گی٠٠٠٠٠اس نے منہ بنایا٠
فطرت کا حسن ،جاذبیت ،گھلاوٹ ،تندی، سبک خرامی ، تاثیر، گہری معنویت ، دلرباٸی ، سلونی گھٹاوں کی اٹھکھیلیاں ، دودھیا صبحوں کی صباحت، متوالی راتوں کا فسوں ،چاندنی کی گنگناتی لہریا سرخوشی و تراوٹ  اور مدھر گیت کے  جیسا  نرم بہاو والا چاند کا سجیلا اکلاپا ٠ صبح کی کسمساتی انگڑاٸی ،اَفتاب کا کھلتا جوبن، سرد دوپہروں کی ہوشربا تمازت ، جون کا ظالم ابلتا دھواں دھار غبار ، شعلے برساتی چلچلاتی بے رحم ننگی شعاعوں کاقہر ، شام کی تھکن اور دو وقتوں کے ملن کاجادو، یہ  سب میری روح میں بسرام کر گیا اور اس کی موجودگی کی تاثیر  روح کے رستے   خون میں  گونجنے لگی تھی ٠ میں ہوا کی بولیاں سنتی ، سبز پتاور کی بجتی جھانجن پر مسکاتی اور مدھر چاندنی کی چھایا میں سو جاتی٠ فطرت میری ہمجولی تھی اس لیے میں نے بہت کم سہیلیاں بناٸیں وقت ہی نہیں تھا دوستانے نبھانے کا٠ زندگی کالا کوڑا  لیے میری پیش قدمی کی منتظر تھی ٠ اور میں ذہنی و روحانی سطح پر اپنے الھڑ مشاہدے اور ذاتی تجزیے کے بل پر زندگی کے مقابل اَنے کو دھیرےدھیرے  سیکل ہورہی تھی٠ کلاس روم دسمبر کی سردی سے ٹھٹھرا ہوا تھا  سنسناتی ہوا گالوں کو چیرتی ہوٸی گزرتی تو عجب مزہ دیے جاتی ٠ بینچ فیلوز سی سی کرتی میری مسکان اور مزے پر شدید الجھن کا شکار تھیں ٠ اسلامیات کی ٹیچر چھٹی پر تھی ٠ بچھلی بینچ کی فیلوز بڑے زور و شور سے بحث کر رہی تھیں پوری بات شدید شور میں سمجھ نہ اَ سکی بس اک جملہ سناٸی دیا بلیو پرنٹ دیکھتی ہے وہ تو٠٠٠٠٠یہ بلیو پرنٹ کیا ہوتی ہے میں نے بینچ فیلو سے پوچھا ٠٠٠؟ معلوم نہیں ٠٠٠٠ وہ بولی٠ گھر اَکر میں نے طاہر بھیا سے پوچھا یہ بلیو پرنٹ کیا ہوتی ہے بھیا٠٠٠٠؟ پہلے وہ حیران ہوٸے پھر پوحھا یہ کس سے سنا تم نے ٠٠٠؟ پچھلی بینچ والی کہی رہی تھیں٠ بیٹا ایسی لڑ کیوں سے دور رہو اور کبھی ان کی محفل میں بیٹھنے کی غلطی بھی نہ کرنا وہ دیر تلک سمجھاتے رہے٠ مگر یہ نیلی فلم کیا ہے اَخر ٠٠٠٠؟ ذہن سوال کرتا رہا٠ دو ماہ بعد بلیو پرنٹ بولنے والی شوخی لڑکی سکول سے بھاگ گٸی٠٠٠٠٠
شہر کے اکلوتے ہاٸی سکول میں داخل ہوٸی تو اندرونی عمارت کی دیواروں پر کندہ  اشعار و اقوال  نے ذہن و دل دونوں کو اپنی گرفت میں لے لیا٠
01 -مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
02 – جو عالی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں
صراحی سر نگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ
03 – سیدنا ابوبکر نے فرمایا
مجھے پرانے کفن میں دفنایا جاٸے کہ نٸے کپڑوں پرصرف زندوں کا حق ہے ٠(منقول)
ان اشعار و اقول کے زیرِ اثر زندگی کی راہ متعین ہو گٸی
خاندانی وجاہت پر اترانا اور اس کے بل پر جھوٹی عزت بٹورنا میرے مزاج و کردار سے لگا نہیں کھاتے تھے سو کبھی کسی سے  خاندانی پس منظر بیان کرنے کی کھیکھڑ نہیں اُٹھاٸی٠ہمیشہ   اپنی صلاحیت و قدرت اَزمانے کی بھر پور کوشش کی ٠ماضی کی درخشندگی  مرے آبا کی ملکیت اور ورثہ تھا سو اس سے کوٸی غرض نہ رکھی٠مجھے تو خود اپنے آپ کو آزمانا اور ثابت کرنا تھا٠سکول کی بزمِ ادب سوساٸیٹی میں  سنگر،اداکار اور ہدایت کار کے طور پر ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا٠پڑھاٸی میں سدا کی من موجی تھی جب جی چاہتا فرسٹ پوزیشن اپنے نام کر لیتی اور جب من کرتا تیسری اور چوتھی پوزیشن پر مسکاتی٠رٹا لگانا میرے مسلک کا حصہ نہ تھا٠ہر موضوع پر خود سوچنا اور نتاٸج اخذ کرنا فطرتِ ثانیہ تھی٠نتیجتاً اسی فطرت کے ہاتھوں اکثر و بیشتر اساتذہ کی ناراضگی کا سامنا رہا٠مصلحت کوشی اور سمجھوتے سے اللہ واسطے کا بیر تھا جس کی وجہ سے زندگی  کی اوگھڑ گھاٹی سے گزرتے ہوٸےہر پل  زخم کھایا ، درد وصولا مگر ہر قسم کی شرمندگی ، اور پچھتاوے کی کالی دلدل سے با اَمان بچ نکلی٠ جھوٹ سے یارانہ نہ بن سکا سو تنہاٸی کی بیکراں وسعتوں سے گوڑھا معاشقہ چل نکلا ٠ اور کیا خوب چلا٠
ساٸنس گروپ کو” اردو “محترمہ شیریں لغاری صاحبہ پڑھاتی تھیں٠ ٠ خوبصورت ساڑھیوں میں ملبوس پلو جھلاتی یہ پر کشش میڈم بہت کم کم سلیبس کی طرف آتی تھیں سو  ایف ایس سی کی طالبات نے اردو کا پیریڈ  ٠ہفتے دس دن میں ایک ادھ بار لینے کا متفقہ فیصلہ کر لیا٠ چپ چاپ ایک آدھ دن  کلاس میں جاتے اور ساڑھی و لپ اسٹک کے کمبینیشن کو داد دے کر چلے آتے٠ گرمیوں کے دن تھے کیمسٹری کا پیریڈ نہیں ہونا تھا اس لیےہم سب فیلوز ہوسٹل ساٸیڈ کی درختوں بھری راہداری پر ٹہلنے کی نیت سے اپنے کلاس روم سے باہر نکلے اور گراونڈ میں رنگین قناطیں دیکھ کر خوش ہو گٸے٠ فیصلہ ہوا ٠٠٠چل کر دیکھتے ہیں کہ آج اس وقت کیا فنکشن ہوا چاہتا ہے ٠٠٠٠٠؟ پتہ چلا مقابلہِ شعر خوانی ہے٠  لڑکیاں بڑے بڑے شعرأ سے غزلیں لکھوا لاٸی ہیں ٠٠٠٠٠ اگر میں اب اپنا نام دوں تو کیا مجھے مقابلے میں  شامل کر لیا جاٸے گا٠٠٠٠٠؟ ہم نے فورتھ اٸر کی منتظم باجی سے پوچھا ٠٠٠٠٠؟ ہاں ہاں شاعرات کی بہت کمی ہے٠٠٠٠ میں آپ کا نام لکھ لیتی ہوں ٠٠٠٠ اب مسلہ تھا غزل کہنے کا ٠٠٠٠٠اب تک جو بھی لکھا نظم کی صورت لکھا تھا غزلیہ اشعار براٸے نام تھے اور اس وقت یاد بھی نہیں تھے٠ لہذا فورآ سے پہلے اک کنجِ تنہاٸی تلاش فرماٸی  پھر اس میں  تھوڑی دیر کے لیے  متکف ہو بیٹھے٠ ثھیک ایک بجے اپنی غزل لے کر پنڈال جا پہنچے٠ دل دھک دھک کیے جاتا تھا بڑے شعرا کی غزلوں کی بھیڑ میں میری یہ نوزاٸیدہ  پہلی باقاٸدہ  غزل ٠٠٠٠٠کیا قدم جما پاٸے گی٠٠٠٠ خیر میرا نام پکارا گیا اور میں ماٸیک کے سامنے جا رکی أور پورے اعتماد سے پڑھنا  شروع کیا ٠     دل تو ٹوٹے ہیں بہت ، لیکن صدا کوٸی نہیں
ہیں کھلی آنکھیں سبھی کی، دیکھتا کو ٸی نہیں
ریت کے ذروں کا آ کر ، جذبِ باہم دیکھٸیے
دور تک بکھرے ہوٸے ہیں، پر جدا کوٸی نہیں
شہر کی دیوار و در پر، ایک فقرہ ثبت تھا
کیا ثبت تھا٠٠٠٠٠٠؟ انگریزی کی استاد مسز فلک ناز جوش سے باروآٹھا کر پکاریں
شہر کی دیوار و در پر ، ایک فقرہ ثبت تھا
پیار کے پیاسے تو ہیں سب، مانگتا کوٸی نہیں
ہم نے مسکرا کراگلا مصرعہ اچھالا اور پھر پورا پنڈال نا صرف سیٹیوں ،تالیوں اور وااہ وا  سے گونج آٹھا بلکہ اساتذہ سمیت سب لڑکیاں رقصاں نظر آٸے٠ مگر٠٠٠٠٠ہاں مگر میری غزل پہلے نہیں دوسرے نمبر پر تھی اور کسی بڑے شاعر کی غزل پہلا انعام پا گٸی تھی٠

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031