اور اکتارا بجتا رہا ۔۔۔ دعا عظیمی
اور اکتارا بجتا رہا
دعا عظیمی
میں بھی صاحب مزار کے قدموں کی طرف احاطے میں سستانے لگا.میں میلوں کا سفر طے کرتا ہوا یہاں تک آتا. شاہ جو رسالو کے راگ مجھے ہر سال یہاں کھینچ لاتے.
سانس پھولتی, تیز ہوتی اور مدھم
اور ایکتارا بجتا رہتا.
میری روح کی پرت پر اک بجھتے ہوئے چراغ کی پھڑپھڑاتی لو سے اٹھنے والے دھویں , سائے اور تھرتھراہٹ سے کچھ دھندلی تحریریں لکھی تھیں.میں انہیں دہرانا چاہتا تھا..
میرے بالکل قریب ایک نوجوان حالت مرگ میں چارپائی پر آخری سانسیں لے رہا تھا. وہ بڑ بڑا رہا تھا .
“جس کا انتظار ساری زندگی میری روح میں کسی تیز لو کی طرح جلتا رہا وہ کیا تھا؟
کیا وہ یہی لمحہ تھا!!!
میں نے اپنی پوری کوشش کے ساتھ آنکھیں کھولیں اسے دیکھنا چاہا مگر میری آنکھوں میں بھی ٹوٹے خوابوں کی سلگن تھی…
وہ پھر بڑبڑایا “شایداب آنکھیں بند رہنے میں ہی عافیت ہے, میں نے اپنے حصے کے دکھ بھوگ لیے اور اپنے تن کو دو حصوں میں کٹتے دیکھا .”
میں نے بےبسی کی آخری حد کو چھو لیا …میں نے بےبسی کےآخری کنارے اور آخری انتہا کے لمحے کو چھو لیا …
یہی زندگی کا آخری لمحہ ہے اور اسے خداحافظ کہنے کا راستہ
تمام بوجھ آج کے دن مجھ سے جدا ہوئے.
جب میں راحت پا جاؤں تو میرے سرہانے ایکتارا بجانا.”
جانے کون تھا.؟ شاید میں.. !
نوجوان کے لواحقین اس کی چارپائی کو اٹھا کر بیرونی دروازے سے باہر لے گئے اور اکتارا بجتا رہا.
شاہ لطیف جو سروں کا سالار ہے .اکتار سے تین تاروں کا سفر طے کرنے والا اور تین سے پانچ, پانچ تاروں والے سازسر بکھیرتے رہے. میں نے محسوس کیا بزرگ راگ کی دھنوں میں امن کی دعا ہے.
فقیر بولا یہ روحانی راگ ہے..جو پچھلے تین سو برسوں سے دائمی سر الاپ رہا ہے. شاہ کی کھڑکی کے پاس کافی بھیڑ تھی.
کالی چادر میں لپٹی اک عورت دعا مانگتی رہی الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر میری سماعت سے ٹکراتے رہے.
“یہ کیسی چنگاری ہے جو ہر ایک کے سینے میں جلتی ہے جسے حیات کہتے ہیں , ہر درخت کے سینے میں جلنے والی چنگاری…”
عورت امید سے تھی..
اے ہرن اور اونٹ کی ہڈیوں سے بنے ساز تجھے تیرے تار
کی سوگند مجھ پہ غم کا قہر نہ توڑ ,
ہر زندہ جان کو اطیمنان عطا کر
ہر روح پر لطف کی لطیف بارش برسا جیسے کہ تو نے شہر بھنبور کی شاہزادیوں اور سندھ کی سورمیاوں سسی, ماروی, مومل , نوری اور لیلاں پر برسائی…….
بیابانوں, ساحلی علاقوں کے جوگیوں سنیاسیوں ,ماہی گیروں, جولاہوں اور چرواہوں کے درد کو بیان کرنے والے امن کے تیسیوں سر سارے جہان کے لیے ہیں..
جلتے تن کے تندروں کی آگ کو گل و گلزار بنانے والے سازندے
…مکتی عطا کرنے والے سروں کے بادشاہ میرے سر کے سائیں کو حیاتی دے,
میرے دامن کا یہ پھول کھلا دے.
وہ دیر تلک دعا مانگتی رہی.
سب سے بے نیاز اکتارا بجتا رہا.
میرے دائیں ہاتھ جدید تراش کے کپڑے پہنے ایک جوڑا سرگوشیوں میں مصروف تھا. شاید یہ اپر کلاس سے تعلق رکھنے والے نوجوان تھے .محبت کرتے کرتے فلسفہ بولنے لگتے اور فلسفہ بولتے بولتے ایک دوجے میں کھو جاتے..کبھی ڈولتے کبھی بولتے
لڑکا بولا….
“موت پراسرار ہے اور محبت حسین.”
لڑکی نے پوچھا “اور زندگی؟؟”
کہنے لگا !”زندگی معصوم بچے کی آنکھوں میں ٹھہری اجلی روشنی ہے. تم اسے دل میں بھر لو اور اپنی ہر صبح روشن کر لو.”
موت پراسرار کیوں ہے”
“اس کے بارے میں کوئی مکمل نہیں جانتا یہ کب کہاں کس حال میں آن ملے اور کیا سلوک کرے اور کہاں لے جائےچلو زندگی کی بات کرو”
کیا زندگی محبت معصومیت اور موت کے اثر سے محفوظ ہے؟؟”
“انسانی زندگی ایک ندی کی طرح رواں
دریا کی طرح بے کنار اور سمندر کے پانیوں جیسی گہری اور پراسرار ہے
جو اسےشراب سمجھے اس کے لیے شراب جو اسے زہر مانے اس کے لیے زہرجو اسے دودھ جیسی متبرک جانے اس کے لیے متبرک”
گویا زندگی کا اصل جوہر تمہاری سوچ ہے
تم جس انداز سے اسے دیکھو گی یہ اس انداز میں ڈھلتی چلی جائے گی,
ایسا کیسے ممکن ہے؟”
کیا میں اپنی روح میں رنگ بھرنے پر قادر ہوں؟کیا میں حالات اور نسلوں کے چھوڑے ہوئے جینز کی پیداوار نہیں؟
یہ سچ ہے بہت حد تک مگر امکان ہے کہ بہت کچھ ہمارے ہاتھ میں بھی ہے.
ہر شے میں منفی اور مثبت دو رنگ ہیں
تم جس رنگ کی طرف بڑھو گی وہ رنگ تمہارا استقبال کرے گا.”
یہ تم پہ منحصر ہے .اچھا لڑکی کے لہجے میں بے یقینی تھی انہوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما اور مذید قریب ہوگئے.
اگر بہت کچھ ہمارے ہاتھ ہے توکیا ہم سب کو ایک ہی ساز سکھا سکتے ہیں یا سارے بچوں کو ایک ساسریلا بنا سکتے ہیں کہ ہر ایک کے گلے میں بھگوان بولے؟
لڑکی نے ایک اور سوال پوچھا
“نہیں یہ رنگا رنگی ہے اور یہی حسن بھی “
“جتنے انسان اتنے رنگ جتنے چہرے اتنی انفرادیت بنیادی طور پر رنگوں کا یہ تناسب اور مقداریں ہی انفرادیت کو تخلیق کرتی ہیں…. بنیادی رنگ سب میں ایک ہیں.”.
“کیامحبت ایک بنیادی رنگ ہے”ہاں یہ وہ تار ہے جس سے ہم سب بندھے ہیں.
بے شک احساس زندگی کا جوہر ہے.
وہ اٹھے کچھ دیر چپ چاپ کھڑے رہے پھر ڈولتے قدموں سےبیرونی گیٹ کی طرف ہو لیے.
میں مزار کے احاطے میں اکڑوں بیٹھا رہا… اور اکتارا بجتا رہا
میری نظر دیوارپر کنندہ ایک تحریرپر پڑی
میری انگلیاں اسے تلاش کرتی ہیں سارے لفظوں میں مجھے یہ محبوب ہے شام کے اندھیرے میں صبح کے سویرے میں زرد پتوں میں سرد راتوں میں اس کے خیال کی چادر پرانی نہیں ہوتی اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے نہ یہ گلاس بھرتا ہے نہ خالی ہوتا ہے.
فقیر نے نعرہ لگایا
حق ہو
اکتارا بجتا رہا.