میری ہم رقص ۔۔۔ فارحہ ارشد
میری ہم رقص
فارحہ ارشد
یہ ایک عریاں شام تھی ۔ جس کے برہنہ سینے پہ وہ رقصاں تھی ۔ اور رقص بھی ایسا کہ نرت نرت پہ وقت ٹھہر کر اس کے نازواندازپہ نچھاورہونے لگا ۔
ڈھولک اور طبلے والےنئی سے نئی گت پیش کر رہے تھے۔ بھدے نقوش مگر سریلی آواز والی مغنیہ نے تان باندھی
پریشاں ہوکے میری خاک ، آخر دل نہ بن جائے
جو مشکل اب ہے یارب پھر ، وہی مشکل نہ بن جائے
وہ ایسے سرمستی کے عالم میں ناچ رہی تھی کہ ہر طرف سے وااہ واہ کا شور بلند ہونے لگا ۔۔ انہی داد دینے والوں میں وہ بھوری آنکھوں اور مغرور تاثر والا نوجوان بھی تھا ۔۔۔
اتنے چھوٹے سے شہر میں ایسی باکمال رقاصہ ۔۔۔۔ وہ ٹھٹھکا
کبھی بند پنکھڑی کی طرح سمٹتی کبھی مکمل کھلے پھول سی بے باک ۔۔۔ خوشبو کی طرح بکھرتی اور بجلی کی طرح کوندتی ۔ یا ۔ یا پھر مے جیسی چھلکتی اور ایسا خمار کہ جہاں پاؤں دھرتی اسے میکدہ بنا دیتی ۔۔۔۔
وہ داد دئیے بنا نہ رہ سکا ۔
اس نے جانے کتنی ہوشرباؤں کے رقص دیکھ رکھے تھے کتنے جلووں کا سامنا رہا مگر وہ یوں کبھی متوجہ نہ ہوسکا تھا ۔
بے نیازی اور سر مستی ۔ ہاں شاید ان دو چیزوں نے اسے متوجہ کیا تھا ۔ وہ محکمے کی کسی میٹنگ کے حوالے سے یہاں آیا تو اس کے شوق اور دلچسپی کو دیکھتے ہوئے رات میں ایک جاگیردار نے یہ اہتمام کر ڈالا ۔ وہ پیتے پلاتے جلد ہی بوریت کا شکار ہوجاتا اور اپنے بیڈروم کی طرف بھاگتا مگر یہ پہلی بار تھی کہ وہ رک گیا تھا ۔۔۔۔
مغنیہ ایک نئی ٹھمری چھیڑ چکی تھی جوکہ وہ کئی گلوکاروں کی آواز میں اس سے قبل سن چکا تھا جو راگ بھیروی میں کافی آہستہ لے میں گائی گئی تھی مگر یہاں مغنیہ نے تیز ردھم میں اسے گایا اور اتنا ہی تیز رقص ۔۔۔ وہ جھوم اٹھا
سانوریا نے کیسا جادو ڈارا ۔ رے
باجو بند کُھل کُھل جائے
سانوریا سانوریا
باجو بند کُھل کُھل ۔۔۔۔۔
دھا دھا ۔۔۔۔ دھا دھا دھانانی دھانا نی
باجو بند کھل کھل جائے
باجو بند ۔۔۔۔
وااااہ واہ ۔ وہ جام ہاتھ میں لیے بے اختیار داد کو اٹھا
سمٹا ہوا ریشمی تھان سا بدن کُھلنے لگا ۔
طبلے کی تھاپ ، طنبورے کی لہک ، ہارمونیم اور سارنگی کے لہرے اور اس نازنیں کا لچکتا بدن ۔ بے خود سامغرور اٹھان والا ۔
اس کی آہو چشمی ، سرو قامتی اور بجلی کی سی لپک ۔۔۔۔۔
رات کے گہرے پن میں اضافہ کرتا اس کے مجسم سراپے کا اسرار ۔۔۔
رات ناچ رہی تھی ، وقت ناچ رہاتھا ، ماحول رقص میں تھا ۔ زمیں رقصاں تھی آسماں ناچ رہا تھا ۔۔۔ ہوا ناچتی تھی بول ناچتے تھے دل ناچتا تھا دماغ ناچتا تھا ۔ وہ ناچتی تھی کہ جہاں ناچتا تھا ۔ وہ بے خود سا خود بھی ناچ اٹھا ۔۔۔
سرمستی کی کیفیت ۔ زاویہ در زاویہ ۔ قوس در قوس ۔ دائروں میں دائرے سمٹتے اور وا ہوتے ہوئے ۔ ۔۔۔ وہ مغرور اٹھان والی جھوم رہی تھی وہ بیزار تاثر والا جھوم رہاتھا
محفل تمام ہوتے ہی وہ اس کے کمرے میں موجود تھی ۔
شمشیروسناں والا طاؤس و رباب والی کے روبرو تھا
“کیا عجب ہوتم” ۔ وہ ابھی تک مدہوش تھا
” عورت ہوں اور اس پہ رقاصہ بھی ۔۔۔ ” ۔ وہ بانکپن سے مسکائی اور ایک غلط انداز نظر اس پہ ڈال کے پشواز سنبھالتی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی ۔ ایسی نظر ۔ قیامت ہی تو ڈھا گئی
ملہار ابھی جاری تھا ۔ کمرے کے باہر سے کوئی منچلا چلتے چلتے شعر گنگنا رہا تھا
رات کا خواب الٰہی توبہ
آپ سنئیے گا تو شرمائیے گا
وہ مفتوح کرنے کو بے تاب تھا ۔۔۔ مگروہاں ایسی تمکنت ایسا فسوں کہ حسب نسب والا زچ ہونے لگا
” اجی صاحب ۔ بازار بھرا پڑا ہے کوئی بھی اٹھا لائیے اور اپنی مقتل گاہ میں جا قتل کیجیے ۔ آپ کو کون روک سکتا ہے ‘ باکرہ ‘ گوشت کھائیے یا باسی ۔ جیسا چاہیں پائیے ۔ اور فکر مت کیجیے یہ تو بازار ہے جہاں عفت و عصمت ابدی نیند سوتی ہے ۔ آپ کے ڈالر اور اس کی چمڑی ۔۔۔۔۔ بوچڑ خانے کی چمڑی ۔۔ “
اس کے وجود سے خوفناک قہقہہ ابلا ۔۔۔ وہ دم بخود سا اسے دیکھے گیا۔
” اتنی بڑی بڑی باتیں ۔ ۔ کہاں سے ہو تم اور یہاں کیسے پہنچیں” ؟ وہ اس کی ذہانت سے مرعوب ہونے لگا۔
” یہاں موجود عورت سے ایسا نہیں پوچھتے ۔۔۔۔ کون اور کہاں بتا کے کیا ہوگا ادھر تعلق بنا اُدھر رابطے کٹ گئے ۔ اب بس میں یہیں کی ہوں ۔ نہیں مانوں گی تو معلق رہونگی ۔۔۔ اور مجھے معلق نہیں ہونا ۔ زمین چاہیے مجھے اپنے لیے” ۔۔۔۔
” ہممم ” ۔ وہ پرشوق نگاہوں سے اسے دیکھتا آگے بڑھا
“مجھے تمہارا لمس چاہیے” ۔ اس نے اسے بازؤوں سے تھامنا چاہا ۔
وہ کسی بجلی کی سی تیزی سے مڑی ۔ اس کے ہونٹ ایک غلیظ فقرہ اس کی طرف پھینکنے کے لیے مچل اٹھے ۔۔ اور تب اس نے بنا کوئی لحاظ کیے اسے ایک انتہائی فحش اور بازاری گالی دی ۔ طوفانی انداز سے آگے بڑھی اور وہ جو دم بخود سا نرمی سےکھڑا تھااسے بیڈ پہ دھکا دیا اور اس کے سینے پہ پاؤں رکھ کر اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بولی ۔
” میں اپنی مرضی سے چلتی ہوں صاحب ۔ اور تم میری مرضی اٹھا نہ پاؤگے۔ “
وہ ہکا بکا سا اسے دیکھے گیا ۔ وہ اٹھنا چاہتا تھا ۔ اس کے پاؤں کے نیچے سے نکلنا چاہتا تھا ۔ انا سر اٹھانے لگی مگر کیا ہوگیا تھا اسے کہ اٹھنے کی خواہش نہیں پاتا تھا
وہ اب اس کے اوپر لیٹی دونوں پاؤں اس کے چہرے پہ رکھے گویا رقصاں تھی۔۔ مہندی بھری پوریں اس کے لبوں اور آنکھوں پہ تھرکتی تھیں ۔۔۔ وہ ایسے طاقتور بازو رکھتا تھا کہ چاہتا تو اس ناگن کو گردن سے پکڑ کھڑکی سے باہر پھینکتا مگر اس نے محسوس کیا اس کی اپنی سانسیں بے ترتیب ہو رہی تھیں اور عجیب سالطف اس کے جسم کومسحور کر رہا تھا ۔ وہ اٹھی اور اس کے سینے اور چہرے پہ تھپڑ مارنے شروع کر دئیے ۔
کمرے کے آس پاس کوئی گا رہا تھا
شام جانے لگے ، میں بُلاتی رہی
سیاں روٹھ گئے ، میں مناتی رہی
اور ۔۔۔ گذرتی رات کے اس لمحے نے انہیں تحیر کے ایک نئے در پہ لا کھڑا کیا۔
مگر ستم یہ کہ
گذرتی رات کا اگلا لمحہ ہوش کا تھا ۔
مکمل عمل کے بعد ہوش آیا تو وہ بپھر اٹھا
” رنڈی کہیں کی ۔۔۔ ” اس نے غصے سے زمین پہ تھوکا ۔ وہی بے حس سرد اور بدمزہ کیفیت والا حسبی نسبی انا کا مارا مرد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پولیس اور سیکیوریٹی اس کے ایک اشارے پہ پہنچ کر اسے ساتھ لے جا چکی تھیں ۔
اسے یاد آیا
وہ اس کے لبوں پہ پاؤں رکھےاس کے اوپر جھول رہی تھی
راگ جاری تھا
رس کے بھرے تورے نین
انگوروں کی گپھاؤں جیسی لڑکیوں کو پاؤں تلے مسلنے والا حیرت کی اس چوٹی پہ جا بیٹھا تھا جسے آج اس نے پہلی بار سر کیا تھا ۔ دونوں نرخ اور ہوس سے کہیں آگے جا کے حیرت کا دروازہ کھولے کھڑے تھے ۔
وہ ابھی بھی اسی منظر میں تھا ۔
وہ اب اس کو زور زور سے تھپڑ مار رہی تھی ۔ پاؤں چٹوا رہی تھی ۔ اور اس کے اندر عجیب سی سنسنی پھیلتی جارہی تھی ۔۔۔ تشدد اور ذلت کا ایسا لطف ۔۔ وہ برہم تھا مگر حیران تھا
جسم ابھی تک اسی سنسنی کے تھپیڑوں میں ہچکولے کھا رہا تھا ۔حواس تھے کہ اسی منظر میں بار بار جانا چاہتے تھے ۔
اوہ
وہ بور ہوچکا تھا ایک جیسے کھیل کھیلتے ۔ ایک جیسا کردار اسے بے حس کر چکا تھا ۔۔۔ وہ حسب نسب اور عہدے والا ایک طوائف زادی سے ذلت اور تشدد سہہ کر ایک نئے جہان جا پہنچا تھا ۔۔ نیا جہان ۔ نئی کیفیت۔ لطف آگیں سا احساس
وہ ۔ اس کی ہم رقص ۔ جان چکی تھی کہ دورانِ رقص کون سا نرت کن اعضا نے کب نبھانا ہے ۔ زمین کے ساتھ کب لگنا ہے کب فضا میں اور کب آسمان کی بلندیوں کی طرف۔۔۔
وہ مقام بدلنا جان چکی تھی ۔
اور وہ
جانے کب سے ایک ہی مقام پہ کھڑا تھا ۔ ساکت جامد سرد
ایک رقص وہ تھا جو اس کا بدن مانگتا تھا اوروہ خوب ناچتی تھی مگر اس کے لیے اسے زمین چاہیے تھی
اور ایک رقص جو اس کا اپنا جسم مانگتا تھا ۔۔ آدمی کا جسم ۔ آدم کا جسم ۔۔۔ ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں سفر کرتا ۔ دائرہ در دائرہ ناچتا ۔۔۔
ایک مقام تو ساکت کرتا ہے
تحیر مرجاتا ہے
اور بنا تحیر تو یہ دنیا کچھ بھی نہیں ۔ یہ جسم کچھ بھی نہیں ۔ بس صرف بے حس مردے کی قبر ہے
اور اس نے بھی برسوں بعد نئے دائرے میں رقص کیا تھا حسبی نسبی اور عزت سے تشدد اور ذلت کے دائرے تک کارقص ۔
حیرت کے زندہ ہونے کا رقص
اس کا جی چاہا ابھی اٹھے اور بھاگ کے کسی رس نکالنے والی مشین میں اپنا پورا وجود گھسا د ے۔
کس قدر عجب تھا کہ اس کا جسم اس سنسنی سے نکلنے کو تیار نہ تھا
پُر تشدد مگر جادوئی لمحات اسے ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں پھینک چکے تھے
جسم چُور تھا لیکن مزید تھکن مانگتا تھا
اوہ۔۔۔
چور توکہیں اس کی اپنی بکل میں تھا
وہ اداس ہوگیا
جانے کب اس نے موبائل اٹھایا اور ایس ایچ او کا نمبر ملا کے بولا
” چھوڑ دو اسے۔۔۔۔۔ “