زرد ہو کر رہے ہم ہرے شہر میں ۔۔۔ فرح رضوی
غزل
فرح رضوی
بے مکانی کے صدقے نئے شہر میں
زرد ہو کر رہے ہم ہرے شہر میں
کیا ہوا ذائقہ بادہ ء شام کا
کس نے تلخی ملا دی مئے شہر میں
گُل مکانوں کے دستے دکھائی دئے
باغ سے تھوڑا ہٹ کے نئے شہر میں
ہاں یہ آغوش ہے، بیسوا کی مگر
سونے والے غلط سو گئے شہر میں
ماجرے بھی ہیں سیل رواں کی طرح
خار و خس کی طرح ہم بہے شہر میں
خال و خط مٹ کے نقشہ بدلنے لگا
اب سبھی رہ رہے ہیں نئے شہر میں
رنگ و خوشبو سے پیمان توڑے ہوئے
پھول جیسوں کی کب تک نبھے شہر میں
Facebook Comments Box