گیلی ہوا ۔۔۔ فرزانہ نیناں
غزل
( فرزانہ خاں نیناں )
گیت گاتی چل رہی تھی صبح کی گیلی ہوا
یاد کا اک پھول مہکا ہوگئی نیلی ہوا
چھن گیا میری ہتھیلی کے چراغوں کا سحر
جانے سوکن تھی یا کوئی آگ کی تیلی ہوا
گھیر کر سب پھول لے آ ئی ندی کی گود میں
پھر اچانک سسکیاں بھرنے لگی سیلی ہوا
بیتی باتیں گونجتی ہیں تیز سیٹی کی طرح
ریل کی پٹڑی سے جب گزری ہے رنگیلی ہوا
آس کی شاخوں پہ کب تک ساتھ میرے اونگھتی
شام جب ڈھلنے لگی تو چل پڑی پیلی ہوا
صبح کی پہلی کرن کے ساتھ کھڑکی کھول کر
اب کے اٹھلاتی ہوئی آئے وہ رسمیلی ہوا
بھول جاتے ہیں یہ نیناں اس کے گھر کا راستہ
روز کر دیتی ہے ان رستوں میں تبدیلی ہوا