خدا بارش نہیں برسائے گا ۔۔۔ فاطمہ مہرو
خدا بارش نہیں برسائے گا
فاطمہ مہرو
اس اک کاسنی لڑکی کے لیے
جو تم سے اکیلے ملنے والی ہے
امید کی آخری کھڑکی کے لیے
جو سوکھے میں کھلنے والی ہے
خدا بارش نہیں برسائے گا
پتھریلی میخوں کے بیچ
تنی ہوئی کچی چھتوں پر
ملبے تلے چیخوں کے بیچ
چند امدادی خطوں پر
خدا بارش نہیں برسائے گا
ان ہونٹوں کے بولتے ہوئے
یقین سے پرے لوگوں پر
ان آنکھوں کے ڈولتے ہوئے
کیفین سے بھرے لوگوں پر
خدا بارش نہیں برسائے گا
اپنی قبر کی مٹی ڈھوتے
مزدوروں کی کان میں
سرداروں کے باقی ہوتے
طبقاتی گھمسان میں
خدا بارش نہیں برسائے گا
نفرتوں سے فراٹے بھرتی
کھوکھلی چلتی مشینوں پر
درختوں سے خالی دھرتی اور خون ٹھوکتی زمینوں
Facebook Comments Box