محبت مر بھی سکتی ہے ۔۔۔ فاطمہ مہرو
محبت مر بھی سکتی ہے
فاطمہ مہرو
ہم اندازے لگاتے ہیں ۔۔۔
ہم اندازے لگاتے ہیں
یقیناً یہ غزل اُس نے، اُسے کھو کر لکھی ہوگی
یہ افسانہ بھلے اُس نے
چھپا کر مفلسی اپنی، کسی ڈائن پہ لکھا ہو
یہ نظمیں تب کی ہیں جب وہ
نشاطِ وصل کی آخر گھڑی میں سانس لیتا تھا
یہ چنداں نثری پارے وہ فقط
اپنے کسی علمی مقالے میں مسلسل سر کھپاۓ لکھ چکا ہوگا
ہم اندازے لگاتے ہیں
کسی کا قد کسی سے کتنا بونا ہے
کوئی کتنا کہاں ہو سکتا ہے یا کس کو ہونا ہے
ہمیں کیا لینا تخلیقی مدارج کو سمجھنے سے
کسی نے زندگی کیسے کہاں چکھی، کہاں پھینکی
ہمیں دیوار کرنے سے کبھی فرصت ملے
تو ہم بھی یہ سوچیں
ادب، اصلی محبت ہے، محبت تھی،
محبت بانٹنے سے بڑھ بھی سکتی تھی
ہمیں اب بس اِسی اک بات کا اندازہ کرنا ہے
کسی کی بات یا اظہار
اندازوں میں اکثر تول دینے سے
رقابت بڑھ بھی سکتی ہے
محبت مَر بھی سکتی ہے .