مُجرا ۔۔۔فاطمہ عثمان

مُجرا

فاطمہ عثمان

وہ روتی پیٹتی جا رہی تھی. اپنے دوپٹے سے آنکھوں اور ناک سے آنے والے پانی کو پونچھتی دل ہی دل میں خدا سے دعا مانگ رہی تھی. وہ لوہے کے بیڈ پر بیٹھی تھی اس کے ارد گرد کی دیواریں کالی ہوئی پڑی تھیں۔ نیچے فرش پر کائی جمی تھی. اس کی نظریں بس ایک دروازے پر تھیں۔.

آس پاس لگا مریضوں کا رش اسے دکھائی بھی نہیں دے رہا تھا, آخر وہ در کھلا,” ڈاکٹر صاحب” وہ اونچی آواز میں کہنے لگی .” خدا کے لئے میرے بچے کا آپریشن کردیں۔”

“بی بی لائن نظر نہیں آرہی۔ سب کے ساتھ ہی ایمرجنسی ہے”.. ڈاکٹر نے اسے تحمل سے جواب دیا وہ بھی کیا کرتا آپریشن کی تاریخ کم سے کم ایک ہفتہ بعد کی مل رہی تھی عورت کے بچے کی اپنڈکس فورا نکالنے کی ضرورت تھی.. وہ ماں تھی بچے کی تکلیف برداشت نہیں کرسکتی تھی. ڈاکٹر نے اپنے پی اے کوئی اشارہ کیا اور اگلے مریض کو اندر بلایا اور پھردر بند کر دیا۔

وہ عورت سوچ رہی تھی کہ وہ جائے تو کہاں جائے کیا کرے۔ کلینک سے علاج کرانے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی وہ کشمکش میں تھی کہ ڈاکٹر کا پی اے باہر آیا۔  عورت کو ایک کارڈ دیا جس پر نمبر لکھا تھا اور پتہ بھی۔.

“بی بی ڈاکٹر صاحب پرائیویٹ دیکھتے ہیں انہوں نے تمہیں شام 7بجے بلایا ہے تم اپنا مریض لے کر پہنچ جانا وہ ضرور تمہاری مدد کریں گے۔”.

بنا تاخیر وہ شام ہی اپنا بیٹا لے کر کلینک کے سامنے تھی. کلینک صاف ستھرا بنا ہوا تھا.. وہ سوچ رہی تھی کہ ڈاکٹر کی منت کرے گی کہ وہ قسطوں  میں فیس ادا کرے گی۔

ابھی وہ اندر داخل ہونے لگی تھی کہ جلدی سے ایک آدمی ویل چیئر لے کر آگے بڑھا. بیٹے کو بٹھایا اور اندر لے گیا۔  وہ بھی  پیچھے بھاگتے دوڑتے چل پڑی. وہ ایک کمرے کے آگے رکا,”  بی بی ۔ یہ آپریشن تھیٹر ہے ۔ تم یہاں رکو۔, ڈاکٹر صاحب بات کرتے ہیں تم. سے ابھی۔ ابھی ہوجائے گا آپریشن پریشان مت ہو۔ “.

وہ حواس باختہ کھڑی تھی., ڈاکٹر صاحب آتے ہی بولے ، ” بی بی تمہارے بیٹے کی اپنڈکس کے ساتھ ساتھ اسی طرف  کا گردہ بھی خراب ہوا پڑا ہے پتھری ہے اور اب اس میں پس پڑ گئی ہے۔. گردہ  نکالنا ہی واحد حل ہے۔ “

وہ حیران نظروں سے ڈاکٹر کو دیکھتے لگی.”  ڈاکٹر جی مجھے اپنے بیٹے کی جان سے بڑھ کر کچھ نہیں. نکال دیں گردہ بھی. پیسے کتنے۔ ؟”

“بی بی تم جا کر بس کاغذات پر انگوٹھا لگا دو۔ “

یہ کہہ کر ڈاکٹر اپریشن روم میں چلا گیا.. وہ عورت کاغذات پرانگوٹھا لگا کر  انتظار میں بیٹھ گئی چند ہی گھنٹے بعد ڈاکٹر نے اس کو بتایا کہ آپریشن کامیاب رہا ۔ دو تین دن میں وہ  اپنا بیٹا یہاں سے لے جائے۔.

“ڈاکٹر صاحب فیس۔ ؟ “

“کوئی فیس نہیں بی بی. میرے لیے دعا کرو۔ ” ڈاکٹر ہنستا مسکراتا  آگے چل پڑا. وہ اسے دل سے دعایئں دیتی رہی۔ . یہ تو فرشتہ بن کے آ گیا میرے بچے کی جان بچ گئی. سکون میں تھی گھر آنے کے بعد بھی وہ ہر کسی کو اس  نیکی کا بتاتی اور ڈھیروں دعائیں دیتی۔.

ادھر ڈاکٹرکا پی اے اس بند کمرے میں کہہ رہا تھا، ” ڈاکٹر صاحب ۔ میرا حصہ ؟ “

” فکر نہ کرو پورا حصہ ملے گا۔ “

“کیسے صفائی سے سب کام ہو گیا. اس عورت کو شک بھی نہیں ہوا ، ویسے کتنی قیمت لگے گی گردے کی۔ ؟”

“قیمت اچھی خاصی لگی، ۔۔۔۔  اسے مفت میں آپریشن کرانا تھا اور ہمیں اپنا کام چلانا تھا۔ “

—————————————————————————————————-

“میری بیٹی بے قصور ہے وکیل صاحب”

“ہاں ہاں مجھے معلوم ہے تمھاری بیٹی کے ساتھ زبردستی ہوئی ہے تم ڈاکٹر کی رپورٹ مجھے دے دو دیکھنا ملزم کے کیسے بخیے ادھیڑتا ہوں “

کچھ ہفتوں بعد عدالت کسی کی زندگی کا فیصلہ سنا رہی تھی

” تمام شواہد اور ثبوتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے فراز پر لگے الزامات بے بنیاد ہیں۔ “

. بچی نے روتے ہوئے اپنے باپ کا بازو کس کر پکڑ لیا۔  بآپ بے بسی سے اپنی لوٹی ہوئی عزت کا جنازہ اٹھائے کورٹ روم سے باہر آیا. بیٹی کو سینے سے لگائے دلاسہ دینے لگا. جیسے ہی اس کا وکیل باہر آیا وہ اس پر برس پڑا، ” وکیل  صاحب آپ نے کہا تھا میرا کیس جیتا ہوا سمجھو ۔ میں نے قرض لے کر آپ کی فیس بھری۔ اور وہ جانور آزاد ہو گیا۔ “

“میں نے یہ بھی تو کہا تھا نا کہ ان لوگوں کی پہنچ بہت اوپر تک ہے. بہت افسوس ہے۔ “یہ کہہ کر وکیل آگے چل پڑا. ۔ باپ کی شفقت اپنی بیٹی کے آنسو سمیٹنے کے لیے ناکافی ہوگئی۔

” سنا ہے بہت اونچ ہاتھ مارا ہے آپ نے وکیل صاحب. ؟”

 بند کمرے میں ہنسی  مذاق ہو رہا تھا۔ ” بس جی  کرم  ہے خدا کا تھوڑی بہت ہیرا پھیری  تو کرنی پڑتی ہے.. فراز کے باپ نے لوٹ بھی بہت دکھائے تھے اور ہمیں اپنا کام بھی چلانا تھا۔ “

“سب مہمان تمہارا انتظار کر رہے ہیں جلدی سے تیار ہو کر نیچے آؤ۔”

“رات کمینے گورنر نے میری حالت خراب کر دی. پیسے بھی پورے نہیں دیے میرے پیروں میں آج دم نہیں۔ “.

“کچھ بھی ہو سب تمہیں بلا رہے ہیں, یہ رونا دھونا بند کرو اور بیٹھک میں آجاؤ فورا میں سکینہ سے کہتی ہوں  تب تک مہمانوں کا دل بہلائے۔ “

بی جی یہ  حکم دے کر غائب ہو گئی۔

اس نے خود کو سمیٹ کر راضی کیا. ٹوٹی چوڑیاں کلائی میں سجائیں. ریشمی لمبے بالوں میں روٹھا ہوا پراندہ  ڈالا. خون والا رنگ ہونٹوں پر سجایا. رات کو درد میں بھٹکے گھنگرو اکٹھے کئے اور اپنے سفید پیروں کی زینت بنائے پھر آہستہ آہستہ دروازے پرپہنچی. اور سامنے سکینہ آگئی۔

“ارے تم اس حالت میں کیسے مجرا کرو گی.. بی جی کو منع کر دیا ہوتا ۔ ؟ “

وہ آہستہ سے بولی

” کیسے منع کرتی ۔۔۔۔۔ میرے بچے ہیں، ان کے لیے جب تک ہو اپنا کام چلانا پڑے گا۔ “

(گونجتی سرگوشیاں ).

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930