اُجالوں کا اندھیرا ۔۔۔ فاطمہ عثمان
اجالوں کا اندھیرا
فاطمہ عثمان
” خدا رسول کا واسطہ مت جا۔ میری حالت ٹھیک نہیں۔مجھے ضرورت ہے تیری۔ “وہ التجا کر رہی تھی۔
” میں تجھے خدا کے حوالے ہی تو کیے جا رہا ہوں۔ وہ بھی خدا کی خوشنودی کے لیے۔ تو گھبراتی کیوں ہے ؟ بس آٹھ دس ماہ میں واپسی ہو جائے گی۔ ” وہ اطمینان سے جواب دے رہا تھا۔
” تجھے میرا اور بچوں کا کچھ احساس نہیں۔ ؟ وہ سات ماہ کے پیٹ کو سہارا دیے کھڑی تھی۔
” رمہ اور علی اتنے چھوٹے ہیں ، میں ہسپتال بھی نہیں جا سکتی انہیں چھوڑ کر ” وہ گڑ گڑانے لگی۔
” بس کردے بحث کرنا۔ سب اللہ ہی کے بس میں ہے بی بی۔ بھلا ڈر کیسا ؟ بچوں کا خیال رکھنا۔ اللہ کے حوالے ” نصیحت کر کے وہ باہر کے دروازے سے نکل کر غائب ہو گیا۔
” میں جانتا ہوں آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ میری ضرورت ہو تو صحن کی دیوار سے ایک آواز دیجئے گا۔ میں فورا آ جاوں گا۔ ” ہمسایہ اس کی ہمت بندھا رہا تھا۔
” شکریہ بھائی آپ اس مشکل وقت میں میرا سہارا بنے۔ ” وہ آٹھ ماہ کے پیٹ کو بازووں میں سمیٹے کھڑی تھی۔
” آپ کے شوہر تو بہت نیک ہیں۔ تبلیغ کا کام تو اللہ کا کام ہے۔ آپ فکر نہ کریں۔ وہ نہیں ہیں تو میں موجود۔ خود کو اکیلا نہ جانیے گا۔ ” دلاسہ دیتے ہوئے وہ بول رہا تھا اور وہ تھکنے لگی تھی۔ شکریہ کہہ کر اسنے دروازہ بند کیا اور آنسو پینے اندر چلی گئی۔
کچھ دن بعد دردوں سے اس کی آنکھ کھلی، اس نے دونوں بچے ساتھ لیے اور محلے کی آپا جی کے گھر گئی۔
” چلو ۔۔۔۔ تمہارے شوہر کو اور کوئی کام ہے کہ نہیں۔ چار سالوں میں یہ تیسرا بچہ ہے اور ایک کی پیدائش پر بھی موجود نہیں۔ کب تک کوئی دیکھا کرے تم کو بے بی۔ ؟ “
رات کی خاموشی میں آپا کی آواز گونج رہی تھی، وہ درد و غم کی حالت میں بمشکل بول پائی۔
” آپا بچے رکھ لو میں کلینک تک خود چلی جاوں گی۔ ” برا سا منہ بنا کر آپا نے دونوں بچے اندر کر لیے۔ وہ خود کو سنبھالے گلی پار کر رہی تھی۔
وہ تاک میں کھڑا رتھا۔ سامنے سے آ گیا، ” ارے اس حالت میں آپ اکیلی کیسے جایئں گی۔ میں آپ کو لیے چلتا ہوں ۔”
بیٹی کا نام اس نے زہرہ رکھا۔ رمہ اور علی کو وہ اکثر اپنے گھر لے جاتا کہ ننھی زہرہ اور اس کی ماں کچھ آرام کر سکیں۔
ماں کو بھی اب اطمینان تھا، بچے بھی اس آدمی سے بہت ہِل گئے تھے اور وہ شخص ان ماں بچوں کی دیکھ بھال میں لگا رہتا۔
ایک رات بچے گہری نیند سو رہے تھے کہ اس عورت کو کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ وہ گھبرا کر اٹھی۔ مگر اپنے محسن کو دیکھ کر مطمئن ہو گئی اور اپنا وجود اس کے حوالے کر دیا۔ اسی طرح کچھ اور ماہ گزر گئے۔ وہ رات کے اندھیرے میں آتا اور اس کی عزت پر حرف نہ آنے دیتا۔
آخر بیوی بچوں کا حق دار آگیا۔
ابھی گھر سے ذرا دور ہی تھا کہ اس نے کسی مرد کو اپنے گھر سے نکلتے اور اندھیرے میں غائب ہوتے دیکھا۔ وہ دوڑتا ہوا گھر کی دہلیز پر پہنچا اور دروازہ پیٹنے لگا۔
” اتنی سی دیر بھی نہیں رہا گیا مجھے دیکھے بغیر ۔۔۔؟ ” وہ اندر سے بولی، لجائی آواز سن کر شوہر کا خون کھول گیا۔ بیوی نے دروازہ کھولا تو شوہر کو دیکھ کر ذرا بھی نہیں جھجھکی ۔۔۔ اور خوشی سے بولی
” داڑھی تو خوب بڑھا لی تم نے ۔۔۔ اچھے نظر آ رہے ہو، اندر آو، زہرہ سے ملو۔ اب سات ماہ کی ہونے والی ہے۔ “
” وہ آدمی کون تھا ؟ جو ابھی نکل کر گیا ہے ۔۔۔؟” شوہر کی غیرت نے جم کر سوال کیا۔
” وہ ۔۔۔ ؟؟؟ وہ میرے گھر کے جالے صاف کرنے آیاتھا، میرا ہاتھ نہیں جاتا ناں اس لیے وہ میری مدد کرنے آیا تھا۔ “
” بس یا کچھ اور بھی ؟؟ “
” بہت کچھ !! بیوی دکھ اور مایوسی سے جواب دے رہی تھی۔ تمہارے پیچھے مجھے اور میرے بچوں کو اسی نے تو سنبھالا ہے ۔۔۔ تم نے پانچ ماہ سے پیسے ہی نہیں بھیجے ۔۔۔ ” وہ شکایت نہیں یاد دلا رہی تھی۔
” ہاں تو جب اللہ کی راہ میں لوگوں کو راہ راست دکھانے جاتے ہیں تو پیسے نہیں کمائے جاتے۔ ” وہ صفائی دے رہا تھا
” وہی تو ۔۔۔” اطمینان سے جواب آیا
” خدا نے میرے بچوں کا اچھا انتظام کر دیا ۔۔۔ تمہارے پیچھے گھر کا چولہا ٹھنڈا نہیں ہونے دیا ۔۔۔۔” وہ کتنی شکر گزار تھی۔
” اچھا ۔۔۔۔ تو وہ آدمی سب کام اللہ واسطے کر رہا تھا ؟ “
” ارے یہ کیا سوا ہے ؟” وہ نادم نہیں تھی ۔۔۔ ” ظاہر ہے قیمت دی میں نے ۔۔۔ وہ انسان ہے خدا نہیں کہ بلا وجہ عنایت کرتا جائے ۔ “
” بے غیرت ” شوہر کی آن بھڑک اٹھی۔ مگر اس کی آواز اونچی ہوتی، اس سے پہلے ہی بیوی چیخ پڑی۔۔۔۔
” بے غیرت میں ہوں ؟ مجھے تو اپنے ہاتھوں سے خود اس کے حوالے کر کے گیا تھا، ارے وہ محسن ہے میرا اور میرے بچوں کا ۔۔۔ جانتا ہے ۔۔۔ اس نے مجھے اتنے ماہ پیٹ سے نہیں ہونے دیا، میری صحت کا خیال رکھا ، تو ایسا کر چلا جا ۔۔۔ جا “
” دنیا سدھار ۔ لوگوں کو راہ راست پر لا۔ ہمیں تیری بھلا کیا ضرورت ؟ میں نہا کر شکرانے کے نفل پڑھ لوں کہ خدا نے تیرے بغیر ایک رات بھی مجھے اور میرے بچوں کو بھوکا نہیں سونے دیا۔