مٹی کی مُورت ۔۔۔ فہمیدہ ریاض

میں تو مٹی کی مورت ہوں۔

( فہمیدہ ریاض )

میں تو مٹی کی مورت ہوں
پھر نیم قدم شب آ پہنچی
میں ان بے کار خیالوں کی
رنگین کنچن مالا سے
کب تک کھیلوں
میں مٹی کی اک مورت ہوں
کیا ہوا اگر اس مورت میں
بہتا ہے لہو کا ایک دریا
اور دریا میں طغیانی ہے
وہ تیری یاد کا چاند چڑھا
بڑھ بڑھ کے لہریں آتی ہیں
ساحل سے ٹکرا جاتی ہیں
ان اٹھتی گرتی لہروں سے
کیا پھل پائے گا بدن میرا
میں تو مٹی کی مورت ہوں
مٹی گھلتی جائے گی
گھٹتا جائے گا بدن میرا

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930