ضخیم پروں والا ضعیف بندہ۔۔۔گارسیا مارکیز/قیصر نذیر خاور
ضخیم پَروں والا اِک ضعیف بندہ
گیبرئیل گارشیا مارکوئیز
اردو قالب: قیصر نذیر خاور
بارش کے تیسرے روز انہیں گھر میں بہت سے کیکڑے مارنے پڑے جنہیں’ پیلاﺅ‘ کو پانی بھرے کھیتوں سے گزر کر سمندر میں پھینکنا پڑا تھا ؛ ان کے نومولود کو رات بھر بخار رہا تھا اور ان کا خیال تھا یہ سرانڈ کی وجہ سے تھا ۔ دنیا منگل کے روز سے اداس تھی ۔ سمندر اور آسمان دونوں ہی راکھ جیسے سرمئی تھے اور ساحل پر ریت ، جو مارچ کی راتوں میں اس طرح چمکتی تھی جیسے اسے روشنی کو ذروں میں بدل دیا گیا ہو ، کیچڑ اور گھونگوں کا شوربہ بنی ہوئی تھی ۔ دوپہر کے وقت بھی روشنی اتنی کم تھی کہ جب پیلاﺅ کیکڑوں کو پھینک کر واپس آ رہا تھا تو اسے یہ دیکھنے میں دشواری ہوئی کہ اس کے گھر کے پچھلے صحن میں کون حرکت کر رہا اور کراہ رہا تھا ۔ جب وہ بہت نزدیک گیا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ ایک بوڑھا آدمی تھا ، بہت ہی ضعیف جو منہ کے بل کیچڑ میں گرا ہوا تھا اور اپنے ضخیم پروں کی وجہ سے ، باوجود کوشش کے ، اٹھ نہیں پا رہا تھا ۔
پیلاﺅنے اسے ایک ڈراﺅنا خواب سمجھا اور بھاگتا ہوا اپنی بیوی ’ ایلیسنیڈا ‘، جو بیمار بچے کے ماتھے پر گیلی پٹیاں رکھ رہی تھی ، کے پاس گیا اور اسے لئے پچھلے صحن میں واپس آیا ۔ دونوں کیچڑ میں پڑے اس جسم کو خاموشی اور رنجیدگی سے دیکھتے رہے ۔ کپڑوں سے وہ ایک کاٹھ کباڑ جمع کرنے والا لگتا تھا ۔ اس کی گنجی کھوپڑی پر چند بے رنگے بال اور منہ میں دانت بھی کچھ ہی تھے ۔ پانی میں بھیگے ہوئے اس ’پردادے ‘ کی بری حالت نے اس سے وہ درخشانی چھین لی تھی جو کبھی اس کے پاس رہی ہو گی ۔ اس کے گدھ جیسے بڑے ، گندے ، ادھ نچے پرکیچڑ میں بری طرح لت پت تھے ۔ دونوں اسے کافی دیر تک نزدیک سے دیکھتے رہے پھر ان کی حیرت کم ہوتی گئی اور آخر وہ انہیں مانوس لگنے لگا ۔ انہوں نے اس سے بات کی جس کا اس نے ، ملاحوں جیسے اکھڑ لہجے میں ، کسی نہ سمجھ میں آنے والی زبان میں جواب دیا ۔ اس پر انہوں نے اس کے پروں کو اہمیت نہ دیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ طوفان میں تباہ ہوئے کسی بدیسی بحری جہاز کا ایسا ملاح ہے جو ساتھیوں سے بچھڑ کر تن تنہا یہاں آ پہنچا ہے ۔ انہوں نے اپنی ایک ہمسائی ، جو زندگی و موت کے بارے میں سب کچھ جانتی تھی ، کو بلایا کہ وہ اسے دیکھے ۔ اس نے اس ضعیف کو ایک نظر دیکھا اور انہیں ، ان کی غلطی کا احساس دلایا ۔
” یہ تو ایک فرشتہ ہے “ ، اس نے بتایا ، ” یہ تو بچے کی خاطر آیا ہو گا لیکن بڑھاپے کی وجہ سے بارش نے اسے یوں چت کردیا ہے ۔ “
اگلے روز ہر کسی کو معلوم تھا کہ گوشت پوست رکھنے والا ایک زندہ فرشتہ پیلاﺅکے گھر میں محصور تھا ۔ دانا ہمسائی کی فہم کے مطابق فرشتے ان دنوں ایک آسمانی سازش کے تحت زیر عتاب تھے اورمفروروں کی طرح چھپتے پھر رہے تھے لیکن ان میں سے کسی کو ہمت نہ ہو رہی تھی کہ وہ اسے مار ڈالیں ۔ پیلاﺅباورچی خانے میں اپنا ’ بیلفی‘ ڈنڈا تھامے دن بھر اس پرنظر جمائے موجود رہا لیکن سونے سے پہلے اس نے اسے کیچڑ سے گھسیٹا اور مرغیوں کے جالی دار ڈربے میں مرغیوں کے ساتھ بند کر دیا ۔ نصف شب کے وقت جب بارش تھمی تو پیلاﺅاور ایلیسنیڈا ابھی کیکڑے مار رہے تھے ۔ کچھ دیر بعد جب بچہ جاگا تو اسے بخار نہ تھا اور اسے بھوک لگ رہی تھی ۔ اس پر ان کے دل فراغ ہو گئے اور انہوں نے فیصلہ کیا وہ فرشتے کو ایک بیڑے پر تین دن کے لئے ’ آب و دانہ‘ رکھ کر اسے اس کی قسمت پر چھوڑتے ہوئے سمندرکے حوالے کر دیں لیکن اگلی صبح جب سورج کی پہلی کرن طلوع ہوئی اور وہ صحن میں گئے تو انہوں نے سارے ہمسایوں کو مرغیوں کے ڈربے کے پاس فرشتے سے بِنا کسی احترام کے ٹھٹھہ کرتے دیکھا ، وہ اس پر ڈربے کے سوراخوں سے کھانے پینے کی اشیاء پھینک رہے تھے جیسے وہ ملکوتی مخلوق ہونے کی بجائے سرکس کا کوئی جانور ہو ۔
پادری ’ گونزاگا ‘ بھی یہ عجیب خبر سن کر سات بجے سے کچھ پہلے ہی وہاں آ چکا تھا ۔ اس وقت تک صبح سویرے آئے لوگوں کے مقابلے میں کم شغلی لوگ اس محصور فرشتے کے مستقبل کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کر رہے تھے ۔ ان میں سب سے سادہ لوح لوگوں کا خیال تھا کہ اسے دنیا کا ’ میئر‘ بنا دیا جائے ۔ دوسرے جو، ان سے ذرا زیادہ کرخت خیالات رکھتے تھے ، چاہتے تھے کہ اسے پانچ ستاروں والا جرنیل بنا دیا جائے تاکہ ساری جنگیں جیتی جا سکیں ۔ کچھ بصیرت دان یہ فرما رہے تھے کہ اسے نسل کشی کے لئے برتا جانا چاہیے تاکہ دنیا میں ایسے مرد پیدا ہو سکیں جو ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ پر بھی رکھتے ہوں اور کائنات کا انتظام سنبھال سکیں ۔ ادھر گونزاگا جو پادری بننے سے پہلے لکڑہارا تھا اور ڈربے کی جالی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا ، نے اپنے سوالات کا تیزی سے جائزہ لیا اور لوگوں کو ڈربے کا دروازہ کھولنے کا حکم دیا تاکہ وہ اس قابل رحم شخص کو ، جو ایک بڑی خستہ حال مرغی کی طرح ، حیران مرغیوں میں موجود تھا ، کو قریب سے دیکھ سکے ۔ وہ ایک کونے میں پھلوں کے چھلکوں اور بچی کھچی خوراک ، جو صبح سویرے پہنچے لوگوں نے وہاں پھینک رکھی تھی، کے درمیان بیٹھا تھا ۔ اس نے اپنے پرکھول رکھے تھے تاکہ وہ دھوپ سے خشک ہو سکیں ۔ جب پادری گونزاگا نے ڈربے میں داخل ہو کر اسے لاطینی میں صبح بخیر کہا تواس نے دنیا کی بدتمیزیوں سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے اپنی’ قدیم نوادر‘ جیسی آنکھوں کو اوپر اٹھا یا اور اپنی زبان میں کچھ بڑبڑایا ۔ اس پرگرجا گھر کے پادری کو اس کے بہروپئیے ہونے کا شک ہوا کیونکہ اس نے’ خدائی زبان‘ کو سمجھا ہی نہ تھا اور اسے معلوم ہی نہ تھا کہ اس کے پیامبروں کے ساتھ احترام سے کیسے پیش آیا جاتا تھا ۔ اس نے تب نزدیکی جائزے کے بعد محسوس کیا کہ وہ تو تمام تر انسانوں جیسا تھا ، جس سے ایک ناقابل برداشت غیرارضی باس اٹھ رہی تھی ، اس کے پروں کے الٹی اطراف پر طفیلی کیڑوں کی بھرمار تھی اور اس کے پنکھ زمینی ہواﺅں نے اجاڑ کررکھ دئیے تھے؛ اس میں ایسا کچھ نہ تھا جس کی وجہ سے اسے ایک قابل قدر و عزت دار فرشتہ گردانا جاتا ۔ پادری ڈربے سے باہر نکل آیا اور اس نے اپنے مختصر وعظ میں متجسس لوگوں کو سادہ لوحی کے خطرات سے آگاہ کیا ۔ اس نے انہیں یاد دلایا کہ شیطان کیسے اپنے بیہودہ حربے استعمال کرکے معصوم لوگوں کو ورغلاتا رہا تھا ۔ اس نے دلیل دی کہ جس طرح باز اور ہوائی جہازمیں فرق جاننے میں ’ پر‘ بنیادی امر نہیں ہوتا اسی طر ح فرشتے کی پہچان میں بھی اس بات کی ذرہ بھر اہمیت نہ تھی ۔ اس نے ، بہرحال ، لوگوں سے وعدہ کیا کہ وہ ’ بشپ‘ کو خط لکھے گا تاکہ وہ اپنے بڑے سے اور وہ بڑا ، سب سے بڑے کیتھولک پادری کو لکھ سکے اور اُس سب سے بڑے منصف سے یہ فیصلہ لیا جا سکے کہ اس مخلوق کے ساتھ کیا برتاﺅکرنا تھا ۔
اس کی ہوشیاری نے لوگوں کے تخیل سے عاری دماغوں پر اثر کیا ۔ اس محصور فرشتے کی خبر آگ کی طرح ہر طرف یوں پھیلی کہ چند گھنٹوں بعد ہی صحن بازاری ہنگامے کا منظر پیش کرنے لگا اور انہیں سنگین لگی بندوقوں والے فوجی دستے بلانے پڑے تاکہ وہ ہجوم ، جو مکان ہی گرا دینے والا تھا ، کو منتشر کر سکیں ۔ ایسے میں ایلیسنیڈا ، جس کی کمر ، لوگوں کے مچائے گند کو صاف کرتے کرتے دوہری ہو چکی تھی ، کو صحن میں باڑ لگانے اور فرشتے کو دیکھنے کے لئے داخلے پر پانچ ’ سینٹ ‘ لگانے کا خیال آیا ۔
متجسس لوگ دور دراز سے آنے لگے ۔ گاﺅں گاﺅں میلہ لگانے والے کیتھولک مسیحیوں کا ایک ٹولہ بھی وہاں آ گیا جن کے ساتھ ہوا میں اڑنے والا ایک شعبدہ باز بھی تھا جو ہجوم کے سروں پر چکر کاٹتا رہا لیکن کسی نے اس پر توجہ نہ دی کیونکہ اس کے پر فرشتے جیسے نہ تھے بلکہ وہ ایک ’ ناکشتر‘ چمگاڈر لگتا تھا ۔ دنیا بھر سے بدقسمت اور ناچار و بے کس لوگ صحت کی تلاش میں وہاں آنے لگے؛ ایک غریب عورت جو بچپن سے اپنے دل کی دھڑکنوں کو گنتی آئی تھی اور اب قریب المرگ تھی ، ایک پرتگالی آدمی جو ستاروں کے شور کی وجہ سے پریشان ہو کر سو نہیں پاتا تھا ، نیند میں چلنے والا ایک بندہ جو راتوں کو اٹھ اٹھ کر ان تمام کاموں کوسیدھا کرنے کی کوشش کرتا تھا جو اس نے جاگتے میں اُلٹائے ہوتے تھے اور بہت سے دوسرے بھی جو ان سے ذرا کم تکلیفوں میں مبتلا تھے ۔ پیلاﺅاور ایلیسنیڈا البتہ کشٹ کے باوجود خوش تھے کہ انہوں نے ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں اپنے کمرے پیسوں سے بھر لئے تھے جبکہ داخلے کے لئے باری میں لگے زائرین کی قطار افق کے پار تک پہنچی ہوئی تھی ۔
تو بس فرشتہ ہی تھا جو اس سب سے بے نیاز تھا ۔ وہ اپنے اس مستعار مسکن میں خود کو ، باڑ کے ساتھ ساتھ رکھے مقدس چراغوں اور موم بتیوں کی جہنمی تپش سے مضطرب ہوتے ہوئے ، بھی خود آرام دینے کی کوشش میں تھا ۔ شروع میں انہوں نے اسے کافور، جو اُن کی دانا ہمسائی کے بقو ل فرشتوں کی ’ بیان کردہ ‘ خوراک تھی ، کھلانے کی کوشش کی ۔ لیکن اس نے اسے نہ کھایا ، ویسے ہی جیسے اس نے گناہوں سے لدے لاچاروں کے لائے ’ پاپائی‘ کھانوں کو رد کر دیا تھا ، جو وہ اس امید سے لاتے تھے کہ ان کے کھائے جانے پر وہ اپنےگناہوں کے بوجھ سے مکُت ہو سکتے تھے ۔ انہیں یہ بات کبھی سمجھ نہ آ سکی کہ وہ اپنے فرشتہ یا بوڑھا ہونے کے سبب سوائے بیگنوں کے گودے کے اور کچھ نہ کھاتا تھا ۔ اس کی فوق طبعی اور قابل ستائش بس ایک ہی خصوصیت نظر آتی تھی: یہ اس کا ’ صبر‘ تھا ؛ خاص طور پر ابتدائی دنوں میں جب مرغیاں اس کے پروں میں پیدا ہوتے’ کوکبی ‘ طفیلی کیڑوں کو کھانے کے لئے اسے اپنے ٹہونگوں کا نشانہ بناتیں اور ان کے ایسا کرنے سے اس کے پنکھ کمزور جگہوں سے اکھڑ جاتے اور اس سے زیادہ ہمدردی رکھنے والے بھی اس پر سنگ باری کرتے کہ وہ اٹھے اور وہ اسے کھڑا دیکھ سکیں لیکن وہ ایسا کرنے میں تب ہی کامیاب ہو پاتے تھے جب وہ اس کے جسم کو گرم آہن سے ، اس طرح داغتے، جیسے جانوروں کو خصی کرنے کے لئے داغا جاتا ہے ، کیونکہ وہ گھنٹوں بے حس و حرکت پڑا رہتا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ وہ مرچکا تھا ۔ وہ ، آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ ، اونچی آواز میں اپنی قدیمی اور نا سمجھ میں آنے والی زبان میں بولتا ، اٹھتا ، اپنے پروں کو دو ایک بار پھڑپھڑاتا ، یہ پھڑپھڑاہٹ مرغیوں کی خشک بیٹوں اور’ قمری‘ گرد کے جھکڑ چلاتے ہوئے ایسی دہشت پیدا کرتی جو کسی طور ارضیاتی نہ تھی ۔ گو کئی نے یہ جان لیا تھا کہ اس کا یہ رد عمل انتقاماً نہیں بلکہ درد کے کارن تھا اور تب سے انہوں نے اسے پریشان کرنے سے گریز کرنا شروع کر دیا تھا کیونکہ اکثریت یہ جان گئی تھی کہ اس کا یہ مجہول پن ’ ہیرو‘ سا نہ تھا کہ وہ اسے آسانی سے جھیل رہا تھا بلکہ یہ اس کے آرام میں ایک دخل اندازی تھی ۔
پادری گونزاگا قیدی کے بارے میں’ حتمی فیصلہ ‘ آنے کے انتظار میں ، ہجوم سے اپنی خفت چھپانے کے لئے ایک وفادار نوکر کی طرح خدائی ہدایت آنے کی تلقین کرتا رہا لیکن روم نے خط و کتابت میں کوئی عجلت نہ دکھائی ۔ وہاں کے پادری اس بات کی دریافت میں وقت خرچ کرتے رہے کہ قیدی کی ناف تھی یا نہیں ، یا اس کی زبان کا تعلق ’ آرامی ‘ سے تھا بھی یا نہیں اور یہ کہ وہ سوئی کی نوک پر کتنی بار بٹھایا جا سکتا تھا پھر کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ وہ فقط پروں والا ایک نارونجئین تھا ۔ اس قلیل خط و کتابت کا ذکرشاید جاری ہی رہتا کہ ایسے میں غیبی مدد کے طور پر ایک واقعہ ظہور پذیر ہوا جس نے پادری کی مشکل آسان کر دی ۔
ہوا یوں کہ انہی دنوں میلے لگانے والی ٹولیوں میں سے ایک اس قصبے میں وارد ہوئی جس کے ساتھ ایک ایسی عورت تھی جسے اپنے والدین کی نافرمانی کرنے پر مکڑی میں بدل دیا گیا تھا ۔ اس کو دیکھنے کے لئے داخلہ فیس نہ صرف فرشتے کے مقابلے میں کم تھی بلکہ لوگوں کو اس بات کی بھی اجازت تھی کہ وہ اس عورت سے اس کی عبرتناک حالت بارے میں ہر طرح کا سوال کرنے کے علاوہ اس کا سر تا پاﺅں معائنہ بھی کر سکتے تھے تاکہ اس کی دہشت کی سچائی کے بارے میں کسی قسم کا شبہ نہ رہے ۔ وہ دنبے کے حجم والی ایک خوفناک ’ ترن تلا ‘ مکڑی تھی جس کا سر ایک اداس کنواری کا سا تھا ۔ اس کے بارے میں دل خراش بات ، اس کی انوکھی ہیت نہ تھی بلکہ وہ بدقسمت واردات تھی جسے وہ تفصیل سے سناتی تھی ۔ جب ابھی وہ بچی تھی تو ایک بار وہ چپکے سے اپنے گھر سے رقص کرنے کی خاطر نکلی اور جب وہ ساری رات والدین کی اجازت کے بغیر ناچنے کے بعد جنگل میں سے ہوتی گھر لوٹ رہی تھی کہ اچانک بجلی کا ایک خوفناک کوندا لپکا جس نے آسمان کے دو ٹکڑے کر دئیے اور اس پاڑ میں سے گندھکی آگ کا ایک بگولا اس کی طرف آیا اور اس نے اسے مکڑی میں بدل ڈالا ۔ وہ صرف ان ’ کوفتوں ‘ پر ہی زندہ تھی جو اسے دیکھنے والے لوگ ترس کھا کر اس کے منہ میں ڈال دیتے تھے ۔ یہ ایک ایسا منظر تھا جو نہ صرف انسانی سچائی سے لبریز تھا بلکہ ایک خوفناک سبق سے بھی آراستہ تھا اور لازم تھا کہ یہ اس متکبر فرشتے کو شکست دے دے جو بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ محو تغافل رہے اور کبھی کبھار فانی انسانوں کو ایک نظر اٹھا کر دیکھ لے ۔ اس کے علاوہ بھی کچھ ایسی انہونیاں ، جنہوں نے لوگوں کے ذہنی توازن کومتاثر کیا تھا ، بھی تھیں جو اس فرشتے کے ساتھ وابستہ ہو گئی تھیں جیسے ایک اندھا تھا جس کی بینائی تو نہ لوٹی لیکن اس کے منہ میں تین نئے دانت ضرور اُگ آئے تھے یا ایک مفلوج جو چل تو نہ پایا لیکن اس کی لاٹری نکل آئی تھی اور ایک جذام کی مارا بھی تھا جس کے زخموں سے سورج مکھی کے پھول پھوٹ پڑے تھے ۔ یہ انہونیاں تسلی کا باعث بننے کی بجائے تمسخرآمیز مذاق بن گئیں تھیں اور فرشتے کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچا رہی تھیں اور ’ مکڑی عورت ‘ نے تو اسے مکمل طور برباد کر دیا تھا ۔ ان حالات نے البتہ ، پادری گونزاگا کو راتوں کی نیند واپس دلا دی اور اس کی ’جگراتے‘ کی بیماری ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئی ، ادھر پیلاﺅکا صحن پھر سے ویسا ہی خالی ہو گیا تھا جیسا اس سمے تھا جب تین دن کے لئے بارش ہوئی تھی اور کیکڑے اس کے کمروں میں دندناتے پھر رہے تھے ۔
گھر کے مالکوں کو غم زدہ ہونے کی ضرورت نہ تھی ۔ انہوں نے جو روپیہ کمایا تھا ، اس سے انہوں نے چھجوں والی دو منزلہ عمارت ، اس کے گردا گرد باغات بنائے اور چاروں طرف اونچا جال تان دیا تاکہ سردیوں میں کیکڑے اندر نہ آ سکیں ۔ انہوں نے کھڑکیوں پر بھی لوہے کی سلاخیں لگائیں تاکہ فرشتے بھی گھر میں داخل نہ ہو سکیں ۔ پیلاﺅنے قصبے کے قریب خرگوشوں کا ایک باڑہ بھی بنا لیا اور اپنی’ بیلف‘ والی نوکری کو بھی ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دیا ۔ ایلیسنیڈا نے بھی اپنے لئے ’ ساٹن‘ کی اونچی ایڑی والی ’ پمپیاں‘ اور بہت سے جھلملاتے ریشمی کپڑے ، جو اس زمانے کی زیادہ تر شادی شدہ خواتین اتوار کے روز پہنا کرتیں تھیں ، خریدے ۔ انہوں نے مرغیوں کے ڈربے پر توجہ نہ دی اور اس میں کوئی رد و بدل نہ کیا ۔ وہ ، البتہ ، اس کو اکثرجراثیم کش دوائی ملے پانی سے دھوتے اور اس میں لوبان کی دھونی لگاتے ۔ وہ ایسا ، فرشتے کے تقدس، میں نہیں بلکہ وہاں موجود فُضلے کی سرانڈ ، جو بھوت کی طرح نئے گھر کو بھی پرانے میں بدل رہی تھی ، کے خاتمے کے لئے کرتے تھے۔ بچے نے جب پہلے پہل چلنا شروع کیا تو وہ محتاط تھے کہ وہ مرغیوں کے ڈربے کے پاس نہ جائے لیکن آہستہ آہستہ ان کا خوف جاتا رہا اور وہ بدبو کے عادی ہو گئے ۔ بچے نے ابھی اپنے دوسرے دانت بھی نہ نکالے تھے کہ اس نے ڈربے میں ٹوٹی ہوئی جالی کے راستے اندر جا کر کھیلنا شروع کر دیا ۔ فرشتہ اس سے بھی اتنا ہی لاتعلق رہا جتنا وہ دوسرے فانی انسانوں سے تھا ۔ وہ ، البتہ ، ایک ایسے کتے کی طرح جسے کسی طرح کی خوش فہمی نہ ہو ، صبر کے ساتھ اس کی بے ہودہ حرکتوں کو سہتا رہا ۔ ان دونوں کو ایک ہی وقت میں ’ لاکڑا کاکڑا‘ ہوا ۔ ڈاکٹر جو بچے کا علاج کر رہا تھا ، خود پر قابو نہ رکھ سکا اور اس نے فرشتے کے دل کی دھڑکن کو سنا ، جہاں بے تحاشا سیٹیاں بج رہی تھیں اور اس کے گردوں سے بھی کئی طرح کی آوازیں آ رہی تھیں ۔ وہ حیران تھا کہ ان سب کے باوجود فرشتہ زندہ کیسے تھا ۔ اسے سب سے زیادہ حیرانی اس بات پر تھی کہ اس کے پر بہت منطقی طور پر انسانی جسم کا ایسا قدرتی حصہ نظر آتے تھے کہ وہ خود کو یہ سوچنے سے باز نہ رکھ سکا کہ یہ دوسرے انسانوں کے جسم پر کیوں نہ تھے ۔
بچے نے جب سکول جانا شروع کیا تو اپکشی اثر مرغیوں کے ڈربے کو گرا چکا تھا ۔ فرشتہ ، ایک آوارہ مرتے ہوئے آدمی کی طرح ، ادھر ادھر گھسٹتا پھرتا ۔ وہ اسے جھاڑو کی مدد سے کمرے سے نکالتے تو اگلے لمحے ہی وہ باورچی خانے میں موجود ہوتا ۔ وہ بیک وقت ایک سے زیادہ جگہوں پر موجود ہوتا جس پر وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کہیں وہ اپنے چربے تو نہیں بنا رہا یا گھر بھر میں خود سے دوسرے فرشتوں کو جنم تو نہیں دے رہا ۔ ایلیسنیڈا اس پر باﺅلی ہو جاتی اور مشتعل ہو کر چیختی کہ اس کے لئے فرشتوں سے بھرے اس جہنمی گھر میں رہنا مشکل ہوتا جا رہا تھا ۔ اب وہ کھاتا بھی بہت کم تھا اور اس کی قدیم نوادر جیسی آنکھیں بھی دھندلا گئی تھیں اور وہ اشیاء سے ٹکراتا پھرتا اس کے پنکھ مکمل طور پر جھڑ چکے تھے اور پروں کی نالیاں ننگی ہو گئیں تھیں ۔ پیلاﺅنے خیرات کے طور پر اسے ایک کمبل اوڑھا دیا اور اسے چھجے تلے سونے دیا ۔ تبھی انہوں نے محسوس کیا کہ راتوں کو بخار اسے آ لیتا تھا اور ہذیانی کیفیت میں اس کے منہ سے قدیم نارونجئیین زبان کے مُڑے تُڑے الفاظ نکلتے تھے ۔ یہ ، ان چند موقعوں میں سے ، ایک ایسا وقت تھا جب انہیں خطرے کا احساس ہوا تھا کہ وہ مر رہا تھا اور ان کی دانا ہمسائی بھی انہیں یہ نہ بتا پائی تھی کہ مرے ہوئے فرشتوں کا ’ کریا کرم‘ کیسے کیا جاتا ہے ۔
اور پھر ، کچھ ایسا ہوا کہ وہ نہ صرف اس برے اور کٹھن موسم سرما کو جھیل گیا بلکہ اوائلی دھوپ والے دنوں میں اس کی حالت بہتر ہونے لگی ۔ وہ صحن کے دور والے کونے ، جہاں اس پر کسی کی نظر نہ پڑتی تھی ، میں کئی دنوں تک بے حس و حرکت بیٹھا رہا اور دسمبر کے آغاز میں اس کے پروں پر بھاری پنکھ اگنا شروع ہو گئے جیسے ’ بھجوکا ‘ کا بھوسہ ہوں ، دیکھنے میں یہ اس خستہ حال کی ایک اور بدقسمتی کا مظہر لگتا تھا لیکن اسے اس تبدیلی کا مکمل ادراک تھا کیونکہ اس بارے میں خاصا محتاط تھا کہ کوئی اس کے پنکھ دیکھ نہ پائے اور نہ ہی اس کے ملاحی گیت سن پائے جو وہ تاروں بھری راتوں میں کبھی کبھار گنگناتا تھا ۔ ایک صبح ایلیسنیڈا جب دوپہر کا کھانا تیار کرنے کے لئے پیازکاٹ رہی تھی کہ دور سمندر سے آتی ہوائیں باورچی خانے میں آ کرٹکرائیں ۔ وہ کھڑکی کی طرف گئی اور اس نے فرشتے کو اڑان کی ابتدائی کوششیں کرتے دیکھا ۔ یہ اتنی بے ڈھنگی تھیں کہ فرشتے نے اپنی انگلیوں کے ناخن سبزیوں کی ایک کیاری میں گاڑ دئیے تھے ، اس نے پھرسے پروں کو پھڑپھڑایا جس نے روشنی کے تسلسل کو مرتعش تو کیا لیکن وہ ہوا پر گرفت نہ پا سکا اور چھجے کو گرانے ہی لگا تھا ۔ اس نے پھر ہمت کی اور زور لگا کر اونچائی پکڑ ہی لی ۔ ۔ ۔ اور جب وہ آخری مکان کے اوپر، ایک بوڑھے گدھ کی طرح ، جوکھ بھری الٹی سیدھی پرواز پر تھا تو ایلیسنیڈا کے منہ سے ، اپنے اور اس کے لئے ، سکون بھری سانس نکلی ۔ وہ پیاز کاٹتے ہوئے اسے اس وقت تک دیکھتی رہی جب تک یہ اس کے لئے ممکن تھا ۔ اب وہ اس کی زندگی میں مزید باعث زحمت نہ تھا بلکہ دور سمندر کے افق پر ایک خیالی نکتہ بن چکا تھا ۔
Orignal Title : Un señor muy viejo con unas alas enormes (1955)
English Title : A Very Old Man with Enormous Wings (1972)
Written by
Gabriel García Márquez(6 March 1927- 17 April 2014) was a Colombian novelist, short-story writer, screenwriter, and journalist. Winner of Nobel Prize in Literature (1982)