عورت کتھا۔ کل اور آج ۔۔۔ ڈاکٹر صابرہ شاہین

عورت کتھا(کل اور آج)

                                   ڈاکٹر صابرہ شاہین

آج سے قریبآ تین چار  ہزار سال پہلے  معاشرے میں  مدر سری نظام   رائج تھا (1) ۔ عورت خاندان کی سر براہ ہوتی تھی اور  نسل کا نام بھی عورت ہی کے نام سے چلتا تھا٠ وہ ایک وقت میں کئی کئی شوہر رکھنے کا حق رکھتی تھی ۔ اور بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت- خدا داد  کی وجہ  سے اسے معاشرے میں  دیوی کا درجہ حاصل تھا ٠ مرد اس مقدس دیوی کے سامنے  ہردم سرنگوں خدمت بجا لانے کو تیار رہا  کرتا۔ ٠٠٠پھر وقت نے کروٹ بدلی اور سب اتھل پتھل ہو گیا٠ مرد جو عورت  کا پجاری تھا اس حقیقت سے آشنا ہو گیا کہ بچہ پیدا کرنا  تنہا عورت دیوی کا  معجزہ ِ خاص نہیں ، بلکہ مرد بھی اس چمتکار میں  برابر  کا حصہ دار ہے٠ سچ سے آشناٸی کیا ہوٸی پجاری دیوتا بن بیٹھا ٠ اور  اس نے عورت کو الوہیت کے مقام-فراز سے اتار کر  پاتال کی پستیوں  میں پھینک دیا٠  اس پر مستزاد یہ کہ اس نے عورت کے وجود و شخصیت  اور دائرہ-کار کی من چاہی تشریح و  توضیح   کرنا اپنا وظیفہِ خاص بنا لیا   تاکہ وہ عورت کو ہیٹا و بے وقعت  ثابت کر سکے ٠  سماجی  ارتقا کا سفر آگے بڑھا  اور  زراعت کازمانہ آیا  تو اپنے ساتھ  احساسِ ملکیت کا تحفہ بھی  لایا٠ جس کا بدیہی نتیجہ یہ نکلا کہ  مرد نے عورت کو  اپنی کنیز اور ذاتی ملکیت بنا لیا ٠مگر المیہ یہ ہوا کہ اس کامیابی و کامرانی کے باوجود بھی مرد کے لیے یہ خیال  سوہانِ  روح  رہا   کہ عورت اپنی   تمام تر جسمانی کمزوریوں  کے باوجود اس کے حواس پر قابض رہنے کی کامل صلاحیت سے بہرہ مند  ہے۔عورت کی اس صلاحیت کو اس نے جادو پر محمول کیا۔ اور  اس  کے خلاف اپنے من میں اک خاص قسم کی نفرت  پالنے لگا  ٠ عورت دیوی  جو ایک زمانے  تک  اس کے من مندر کی مورتی  تھی  وہ اب  اسے  روحِ خبیثہ نظر آنے لگی٠

زراعت کا زمانہِ آیا  تو   اجتماعی ضرورت کے تحت  خاص قسم کی تہذیب اور سماج نمو پذیر ہوئے ۔قوانین مرتب کیے گٸے اور تخلیق کے بارے میں نظریات بننے  لگے ۔برصغیر میں منو کے قوانین نے عورت کو پست ہستی قرار دیا ( 2)۔رومی قوانین عورت کو  زیر-نگرانی رکھنے کے ساتھ ساتھ  اس کے ضعف-عقل پر زور  دیتے تھے(3) ٠جب کہ  کلیساٸی قوانین عورت کو جادوگرنی کہنے کے علاوہ اس کے جسم اور جنسی  طاقت  دونوں سے نفرت کو روا رکھنے پر مصر تھے( 4) سومیریوں نے   پانچ  ہزار سال قبل  اپنے ادب میں مذہب اور تخلیق-کائنات کے حوالے سے جو نظریات پیش کئے تھے آنھوں نے مشرق و مغرب کے لا شعور کو  متاثر کیا۔  آج بھی وہ نظریات کسی نہ ;کسی صورت میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر بحر-ظلمات ،دوبارہ جی آٹھنا، آخرت، آفرینش کا قصہ، چکنی مٹی سے انسان  کی تخلیق ،شجر-ممنوعہ، اور عورت کا مرد کی پسلی سے پیدا ہونے کا تصور وغیرہ ٠ جیسے جیسے قوانین سخت ہوتے گئے  عورت کی تذلیل کی کہانی  گھمبیر  تر ہوتی گئی۔  البتہ ماں کے روپ میں عورت کی تقریم   ہر دورِ میں  باقی رہی ٠ سومیریوں کے بعد( مصریوں ،یونانیوں، رومنوں اور ایرانی زرتشتوں میں عورت کے حوالےسے قریب قریب  ایک جیسے متضاد رویے اور نظریات راٸج رہے ان نظریات کے مطابق  عورت  کبھی تو جنس کا استعارہ-محض رہی اور کبھی  چار دیواری کی پابند  ستی ساوتری۔ کبھی اسے رنڈی، داشتہ ‘ کسبی اور جسم و جنس کی تسکین کا ذریعہ – محض سمجھا گیا اور کبھی ماں مان کر باتوقیر گرداننے کا احسان عظیم کیا گیا(5)۔  آسمانی مذاہب یعنی یہودیت ،عیسائیت اور اسلام  تینوں جو اپنےساتھ  معاشرے کے  پست طبقات  کو سنبھالا  دینے کا منشور  لاٸے تھے   عورت کی مخدوش صورتِحال کو  بہتر بنانے کا  دعوے دار بھی تھے٠ مگر چشم ِجہاں نے دیکھا کہ  ۔یہودیت کامل طور پر پدری نظام کی علمبردار تھی اس لیے  اس مذہب میں  عورت  غلاموں اور  وراثتی جائیداد کی باقی اشیا  کی طرح ورثے میں حاصل ہونے والی اک چیز ہی رہی(6)  عیسائیت میں مادری  پدری  دونوں نظاموں کی  خوبیاں  ایک ساتھ موجود تھیں٠ مگر اس مذہب نے عورت و مرد دونوں کی جنسی آزادی پر قدغن لگائی اور رہبانیت کو زندگی کی معراج ٹہرایا٠ یوں عورت اس مذہب میں بھی محض برائیوں کی جڑ  ہی گردانی گٸی اور  نفرت کی سزاوار ٹہری(7) ٠ البتہ اسلام  اک ایسا مذہب تھا جس نے مرد و زن دونوں کو آزاد فرد قرار دیا ۔عورت پر تعلیم کے در وا گئے۔ اسے نکاح ،طلاق ،مہر  یہاں تک کہ بچے کو دودھ پلانے کا معاوضہ تک لینے کا حق  دیا (8)اور بیٹی کی پرورش اور  بہتر تعلیم وتربیت کو بخشش کا ذریعہ قرار  دیا مگر عیار علما اس مذہب کے واضح احکامات اور سریع قوانین میں بھی ڈنڈی مار گٸے٠  جس طرح عیسائی مذہب میں حضرت عیسی علیہ سلام کی جنسی احتیاج سے مکمل بے نیازی کو  کم عقل علما  نے  رہبانیت  بنا دیا تھا ۔ بلکل اسی طرح   اسلام  کی طرف سے عورت کو ملنے والی  تقریم و وقار اور جملہ حقوق کو  لالچی اور کج فہم  علما نے اپنی کم فہمی کی بنا پر  غضب کرنے کی کوشش کی اور اس ہستی کو  اپنا تابع  فرمان بنانے  میں  ایڑی چوٹی کا زور  لگایا۔

 یورپ  تہذیب آشنا ہوا تو  ایک شادی ایک مرد کا تصور پیش کیا گیا ٠ عورت کو پردے میں رکھنے کی روایت قاٸم  ہوٸی ۔مگر جیسے ہی صنعتی انقلاب بر پا ہوا ، عورت کی حیثیت  بدل گٸی ٠  وہ اب  محض “ماں” یا طوائف  نہ رہی تھی بلکہ معاشی ضرورتوں اور ذمہ داریوں نے اسے  ورکر کی حیثیت سے مرد کا  ہم کار اور ساتھی بنا دیا تھا ۔یہ الگ بات  ہے کہ اس کی اجرت  مرد کولیگ سے کم تر ہی رہی٠  دفتروں میں عورت کے ورود  نے سب سے پہلے پردے کی روایت کو توڑا٠  پردہ ختم ہوا٠٠٠تو  عورت کو جنسی آزادی بھی مل گئی ٠  مگر اس آزادی سے عورت کی نسبت  مرد نے  دوگنا فاٸدہ اٹھایا٠ اس نے  ناصرف جنسی فوائد حاصل کیے ۔  بلکہ عورت سمیت ہونے والے بچے کی دیکھ ریکھ اور ہر طرح کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے سے بھی انکاری  ہو گیا۔ یعنی میٹھا میٹھا ہپ ہپ٠ کڑوا کڑوا تھو تھو۔ سماج ارتقاٸی منازل طے کرتا رہا  خیالات  و نظریات تبدیل ہوتے  رہے اور زندگی کرنے کے سلیقوں میں انقلاب برپا ہوا تو  سماج کے مظلوم و مقہور طبقہِ نسواں میں  بھی آگہی کی تیز  لہر  نے انگڑاٸی لی ٠  پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ معاشرے کی اس کمزور ہستی نے مرد کے مقابل آکر اپنے حقوق کی خاطر آواز آٹھانے کا ناصرف فیصلہ کر لیا  بلکہ  پوری  بہادری و حوصلہ مندی کے ساتھ اپنے حق کی لڑاٸی لڑنے کے عملی مظاہرے بھی کرنے لگی٠

1830کی دہائی  میں آزادی-نسواں کی تحریک چلی (9)اور عورت کو تعلیم کے مواقع ملنا شروع ہو گٸے ٠جبکہ  سول وار کے بعد غلامی کو خلاف-قانون قرار  دے دیا گیا ۔یہی وہ وقت تھا جب انگریزی اقتدار کے ساتھ آزادی-نسواں کی تحریک بھی ہندوستان پہنچی۔ انگریز مشنری نے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے عورت کو تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی٠ خواتین کے لئے رسائل کا اجرا  کیا گیا۔  راشدالخیری اور پریم چند جیسے لکھاریوں نے ان رساٸل میں عورت کی مظلومیت کو کھل کر بیان کیا اور عورت  کے لیے تعلیم کے حصول کو تہزیب و سماج کی ترقی کے لیے لازم قرار  دیا٠ ان کی ان مساعی اور مخلصانہ تحریروں کی وجہ سے عورت پر تعلیم کے رستے ہموار ہونے لگے ٠حکومت نے  اس حوالے سے قانون سازی کی اور یوں عورت کی آزادی کی راہ مزید سہل  اور سیدھی ہوگٸی ٠بچپن کی شادی پر پابندی لگائی گئی۔  مسلمانوں نے مسلم  پرسنل لآ پر توجہ دی اور  1939 کے ایکٹ میں علماٸے اسلام نے خلع کا حق تسلیم کر لیا۔ ساتھ ہی عورتوں کو ووٹ کا حق  بھی مل گیا۔(9) تحریک-آزادی میں عورتوں کی شمولیت کو لازم  سمجھا گیا ٠ انھیں جلسے جلوسوں میں شرکت کی اجازت  دینے کے ساتھ ساتھ  جلوسوں کی قیادت  کا موقع بھی ملا ۔ اس طرح تحریک- خلافت کے بعد عورت سیاسی پلیٹ فارم پر سرگرم عمل  ہوگئی۔ قیام-پاکستان کے بعد 1956 میں عورتوں کے حق-نمائندگی کو پاکستان میں تسلیم کر لیا گیا۔

بنیادی حقوق یعنی تعلیم ، ووٹ کا حق،اور حق-نمائیندگی حاصل کرنے کے بعد عورت تحریر کی اقلیم میں پورے طمطراق کے ساتھ  داخل ہو گٸی۔ ابتدا میں اس نے مردانہ  ناموں سے لکھا  مگر  پھر جلد ہی وہ اپنے نام سے لکھنے لگی ۔ ابتدائی لکھاری خواتین  کے بعد  ادیب عورتوں کی جو کھیپ ادب کے میدان میں اتری وہ جدید علم سے لیس اور جملہ  ادبی کروٹوں سے  آگاہ تھی ٠ اس کھیپ  نے ہر صنف-ادب میں عورت کی بھر پور  نمائیندگی کی اور یوں ، عورت کا مقدمہ یک طرفہ نہ رہا۔ ادب کی دنیا میں چونکہ مرد پہلے وارد ہوا تھا اس کے علاوہ معاشرتی و سماجی حوالے سے بھی وہ برتری حاصل کر چکا تھا ۔ اس لئے ادب و شعر کی اقلیم  میں بھی اس کا نمبر پہلا رہا٠  اسی بے جا  برتری کا شاخسانہ ہے کہ  مرد نے عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق ثابت کرنے کی غرض سے  عورت کی تصویر کاری کے ضمن میں من چاہے اور متضاد تصورات  پیش   کیے ٠کبھی اس نے عورت کو حیا کی پتلی  گردانا اور کبھی بے وفائی و بے حیائی کا کامل نمونہ بنا کر پیش کیا۔  مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اردو افسانے میں ابتدا  ہی سےصورت-حال سراسر  مختلف رہی۔ اس صنفِ اظہار  میں عورت کو  اس کے حقیقی مسائل اور استحصال کے ہر رنگ سمیت پیش کیا گیا ۔ ادب میں عورت کے حوالے سے  ہمدردی  کے ساتھ حقاٸق کو دیانت داری کے ساتھ  پیش کرنے  کا سہرا  راشدالخیری کے سر جاتا ہے ۔

راشد الخیری کے ہم عصر سجاد حیدر یلدرم  مرد و زن کے باہمی تعلق پر خالص رومانوی انداز میں لکھتے ہوۓ ثابت کرتے  ہیں کہ عورت محض تصور نہیں بلکہ حقیقتآ زندگی کی تکمیل کرتی ہے ٠اس کے برعکس دوسرے رومانوی ادیبوں کی تحاریر میں  عورت اور جنس کا تذکرہ محض چٹخارے کے طور پر ملتا ہے٠ مجنوں گورکھپوری عورت کا مابعد الطبعیاتی تصور پیش کرتے ہیں جس کی سجاد حیدر یلدرم مسلسل  نفی کرتے نظر آتے ہیں٠ مرزا ادیب عورت کو محنت، محبت اور قربانی کی ایسی مثال ثابت کرتے ہیں جس کا اپنا ایک کردار بھی ہے٠ پریم چند کے ہاں  عورت کی پیش کش میں تمام اہم تحریکوں کے اثرات  دیکھے جا سکتے ہیں٠ حسن عسکری تقسیم در تقسیم کی توڑ پھوڑ ،احساس  تنہاٸی کا کرب ، نفسیاتی المیوں  اور روحانی شکست و ریخت جیسے مساٸل کو موضوع بناتے ہوٸے طواٸف  کی معصوم  روح  تلک  پہنچ جاتے ہیں٠  جبکہ منٹو کا تصورِ عورت باقی نفسیات نگاروں، ترقی پسندوں اور رومانوی ادیبوں  سے سراسر مختلف ہے٠ وہ گھٹیا درجے کی طواٸف میں بھی پوری عزتِ نفس والی ممتا اور انسانیت سے بھر پور عورت تلاش کر لیتے ہیں٠پھر  یہ انداز ممتاز مفتی سے ہوتا ہوا آغا بابر ، ڈاکٹر سلیم احمد، اختر ،  حسین راٸے پوری اور احمد ندیم قاسمی تک جا پہنچتا ہے ٠ پھر صرف غریب گھرانے کی لڑکیاں ہی موضوع ِ افسانہ نہیں رہتیں  بلکہ شوکت صدیقی کی مردوں کے استحصال کا شکار ہوتی لڑکیوں، غلام عباس کی انندی کی طواٸفوں اور تقسیمِ ہند کے نتیجے میں لٹتی ہوٸی بچیوں  کی آہیں اور کراہیں سب   ریکارڈ  کی جاتی ہیں٠ حجاب امتیاز علی رومانوی تحریک کی نمائندہ لکھاری ہیں جبکہ سجاد ظہیر ، رشید جہاں، عصمت چغتائی اور خدیجہ مستور، ترقی پسند تحریک سے وابستہ افسانہ نگار ہیں اس کے علاوہ بہت سے مرد و زن   لکھاریوں نے طبقاتی، جنسیاتی،مارکسی اور نفسیاتی حوالوں سے کامیاب افسانے تحریر کئے ٠ قراہ العین حیدر انٹلیکچیول عورت کو مصور  کرتی ہیں جبکہ تقسیم-ہند کے بعد بانو قدسیہ،جمیلہ ہاشمی،،فرخندہ لودھی ، افرا بخاری اور اختر جمال  سب اردو ادب کی معروف تحاریک ، نظریات و تصورات کی روشنی میں پاکستان کی عورت کو پیش کرنے کی کامیاب  کوشش کرتی ہیں۔ رومانیت و ترقی پسند تحریکوں کے بعد جیسے ہی وجودیت،علامتیت،اور سیریل ازم جیسی تحاریک زور پکڑتی ہیں  خالدہ حسین، عطیہ سید ، نیلم احمد بشیر جیسی افسانہ نگار خواتین میدان میں  آموجود ہوتی ہیں۔ نیلوفر اقبال یورپ کی آزاد عورت (اعلی طبقہ) کی جنسی آزادی کو موضوع بناتی ہیں اور یوں مرد و زن دونوں اظہار کی سطح پر برابر آجاتے ہیں۔

مگر واٸے افسوس جدید ادب و علم سے بہرہ مند یہ خواتین جو ہر صنفِ ادب میں عورت کی نماٸندگی کرنے کے ہنر سے لیس تھیں نجانے کب اور کیسے جیت کی منزل سے بس دوچار قدم کے فاصلے پر ہی اپنے مقدمے کی پیروی کرنے میں افراط و تفریط کا شکار  ہو کر اپنے ہاتھوں اپنا مقدمہ ہار بیٹھیں اور  یوں عورت کہانی  ادھوری  و نامکمل رہ گٸی ٠  اج بھی عورت  اپنے علم ، تدبر ،  فکر و کردار کی پختگی اور فنی گہراٸی و گیراٸی سمیت دوسرے درجے کی مخلوق  ہے٠ ایسی مخلوق جس کے بدن پر سے روز حرص و ہوس کی تیز گام پوری  بےحسی سے گزر جاتی ہے اور عورت اس پر واویلا بھی نہیں کر سکتی ٠

حوالہ جات

1_ میخاٸل ایلین ، ایلینا سیگاں ترجمہ،حبیب الرحمان، انسان بڑا کیسے بنا،  فکشن ہاوس ص 222

2_ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی،اسلام میں عورت کا درجہ اوراس کے حقوق و فراٸض جامعہ

المومنات الاسلامیہ لکھنو (2008)ص 28

3 ۔ سید جلالالدین عمری، عورت اسلامی معاشرے میں،اسلامک پبلیکیشنز پراٸیویٹ لمیٹڈ لاہور1996،ص18

4_محمد ریاض خان، قاری محمد فیاض ، مجلہ برجس،عنوان ،عالمی مذاہب میں عورت کا مقام تقابلی مطالعہ، جلد1 ،شمارہ2، سن 2019

5_http://lib.bazmeurdu.net/women in /diff_socites_urdu_book

6_ڈاکٹر خالد علوی،اسلام کا معاشرتی نظام،اسلامک بک فاونڈیشن ، نٸی دہلی، 2011،ص466

7_کتابِ مقدس (پرانا عہد نامہ) پیداٸش 3آیت 21_22

8_سورت الماٸدہ آیت33،سورتالحجرات آیت13سورت سورت الاحاف آیت 15سورت الطلاق آیت6 9_رحمن، عاٸشہ،محمد ارشد، عنوان ،حقوقِ نسواں کا شرعی و قانونی نقطہِ نظر سے تجزیاتی مطالعہ، مجلہ ،العلم ،جلد 1

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2024
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930