غزل ۔۔۔ غلام حسین ساجد
غزل
غلام حسین ساجد
دیکھے غلط کہا کوئی سوچے غلط کہا
میں نے غلط کہا ہے کہ اُس نے غلط کہا
تائید ہو گئی مری اُس کے جواب سے
مجھ کو گماں ہوا تھا کہ جیسے غلط کہا
بس ایک سرد خامشی کُن کے جواب میں
کیا میں نے اس مقام سے آگے غلط کہا
سو بار کوئی اپنے غلط کو کہے درست
میں نے غلط کو آج بھی کھل کے غلط کہا
آئے گا حرف میرے عدو کے وجود پر
میری گزارشات کو کیسے غلط کہا
میں اُن کے خواب کا کبھی حصّہ نہیں رہا
وہ میرے خواب میں نہیں آئے ، غلط کہا
رہتے ہیں اس نواح میں کچھ سرپھرے چراغ
آتے ہیں اس طرف بھی پرندے غلط کہا
ساجد ترا کلام ہے تاثیر سے تہی
یہ اور بات تُو یہی سمجھے غلط کہا
Facebook Comments Box