غزل ۔۔۔ غلام حسین ساجد
غزل
غلام حسین ساجد
کوئی بدگمانی ہے اور نہ مخمصے میں ہیں
جن سے رابطے میں تھے ، ان سے رابطے میں ہیں
مِل ہی جائیں گے آخر ، کِھل ہی جائیں گے آخر
وہ بھی راستے میں ہیں،ہم بھی راستے میں ہیں
بات کرتے کرتے ہم یہ جو کھو سے جاتے ہیں
کاروبار ِ وحشت کے پہلے مرحلے میں ہیں
وہ جو عشق کرتا ہے اپنے جاں نثاروں سے
کیا اُسے خبر بھی ہے ہم بھی قافلے میں ہیں
رات بھی اضافی ہے ، نیند بھی اضافی ہے
خواب کے نگر میں ہیں اور جاگتے میں ہیں
آپ سے کہیں گے ہم ، آپ کی سُنیں گے ہم
آپ کے کہے میں تھے ، آپ کے کہے میں ہیں
کاٹ لی مسافت بھی غیب سے حقیقت کی
اور میرے ہم راہی اب بھی وسوسے میں ہیں
کب دکھائی دیتے ہیں ، کب سُنائی دیتے ہیں
رنگ جو نظر میں ہیں ، راگ جو گلے میں ہیں
کوئی جان پایا ہے اور نہ جان پائے گا
میں جو دیکھنے میں ہوں،وہ جو دیکھنے میں ہیں
روشنی بکھیریں گے ، تیرگی سمیٹیں گے
عکس جو زمیں پر ہیں اور آئنے میں ہیں
مضمحل صباحت بھی خواب ہو چکی ساجد
وہ جو شب کدے میں تھے اب بھی شب کدے میں ہیں