غزل ۔۔۔ غلام حسین ساجد
غزل
غلام حسین ساجد
مرے دل سے مری موجودگی کا ڈر نکل جاتا
اگر میں نیند میں چلتے ہوئے باہر نکل جاتا
نہیں ہمت جمال صبح سے تکرار کی مجھ میں
مناسب تھا مرا غصہ چراغوں پر نکل جاتا
خوشی تقسیم کرنے کے لیے کوہ و بیاباں میں
حصار ِ قریہ غم سے بہ چشم تر نکل جاتا
ملی ہوتی مجھے مہلت اگر پرواز کرنے کی
کسی انجان صحرا کی طرف اڑ کر نکل جاتا
مجھے اصل حقیقت جاننے کی آرزو کب تھی
مرے دل سے مگر یہ کذب کا دفتر نکل جاتا
کھلا ہوتا ہماری بے کلی کا حال گر ان پر
تعاقب میں کسی گل رخ کے سارا گھر نکل جاتا
کوئی شے گھر سے باہر لا نہیں سکتی مجھے ساجد
مگر میں اس پری کے کھوج میں اکثر نکل جاتا
Facebook Comments Box