غزل ۔۔۔ غلام حسین ساجد
غزل
غلام حسین ساجد
چراغِ صبح بنوں ، دِن بنا دیا جاؤں
کسی وجود کا باطن بنا دیا جاؤں
ترے مدار میں رہنے کی جب تمنّا ہو
تو دستِ غیب سے ساکن بنا دیا جاؤں
نگار خانۂ موجود سے نکل جاؤں
جو بن نہ پاؤں گا تُم بِن ، بنا دیا جاؤں
یہیں کہیں تھے مری نیند بانٹنے والے
وہ لوٹ پائیں تو کم سِن بنا دیا جاؤں
کسی دیار سے ہجرت کا اذن ملتے ہی
ترے نواح میں ممکن بنا دیا جاؤں
مرا شُمار ہو بیدار کرنے والوں میں
نہیں کہ نیند کا ضامن بنا دیا جاؤں
نکل نہ جاؤں کہیں دامِ عصرِ حاضر سے
میں پھیل جاؤں تو اک چِھن بنا دیا جاؤں
Facebook Comments Box