کسی کو توڑ کے رکھ دے گی خامشی میری ۔۔۔ غلام حسین ساجد
غزل
غلام حسین ساجد
ہوا سے بات کروں گا نہ آئنے سے کلام
کروں گا اب میں کسی اور زاویے سے کلام
قریب لا کے رہوں گا میں اپنی منزل کو
شروع کرنے لگا ہوں میں راستے سے کلام
چراغ بن کے رہی میرے انتظار کی لو
گلاب ہو کے رہا میرے حوصلے سے کلام
کُھلا کہ وہم و گماں کا علاج ممکن ہے
کیا تھا اس نے کسی روز وسوسے سے کلام
کسی کو توڑ کے رکھ دے گی خامشی میری
کشید کر کے رہوں گا میں فاصلے سے کلام
شگفت ہونے لگی ہو نہ دل کی بے تابی
نمود کرنے لگا ہو نہ رت جگے سے کلام
اگر بلایا گیا بارگاہ میں اس کی
ادب سے عرض کروں گا تو قاعدے سے کلام
یقیں نہیں ہے تجھے میری بات پر ساجد
تو کر کے دیکھ کسی اور دل جلے سے کلام
Facebook Comments Box