خواب کے درمیاں ۔۔۔ غلام حسین ساجد
خواب کے درمیاں
غلام حسین ساجد
نیند آتی نہ تھی
چاک پر گُھومتی چھاوں پر ہونٹ رکھنے کی لذّت سے محروم ہوتے گگن
پر اُتر آئی تھی،خواب کی روشنی سے اُمڈتی تھکن
خون میں رقص کرتی ہوئی دُھند کی لجلجی لہر سے
پُھوٹ نکلا تھا،آنکھوں کو مہمیز کرتی ہوئی دُھوپ کا زنگ کھایا بدن
خاک آلودہ کُوچوں میں بہنے لگے تھے کسی موجِ حیرت سے پیوستہ سرو و سمن
کوئی دیوانہ پن
رُت بدلتی نہ تھی
ھجر کی آنچ پر جُھولتے جسم میں جمع ہونے لگی تھی
گُل ِغیب کی آگ سے رنگ لیتی ہوئی سُرمئی بےکلی
بند آنکھوں کے ساگر میں بہتی ہوئی
وہم کے ملگجے سبز ملبوس میں جِھلمِلاتی ہوئی اجنبی روشنی
بے رِدا آئینوں پر برستی ہوئی،آبِ حیواں سے لپٹی ہوئی چاندنی
خُوب و معصوم سی
یاد کرتا ہوں میں
اک گلی میں سحر دم ٹہلتے ہوئے
تیز ہونے لگے تھے قدم کس لیے
دُھوپ میں کِھلکِھلاتے ہوئے جسم پر فتح پانے لگی تھی
فراموش گاری سے لِپٹی ہوئی موجِ غم کس لیے
رنگ اور نُور کی زرد میزان پر
ہو رہے تھے مرے خواب کم کس لیے!