غزل ۔۔۔ غلام محمد قاصر

غزل

غلام محمد قاصر

شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے

گِھستے گِھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے

خارِ چمن تھے شبنم شبنم پھول بھی سارے گیلے تھے

شاخ سے ٹوٹ کے گرنے والے پتے پھر بھی پیلے تھے

سرد ھواٶں سے تو تھے ساحل کی ریت کے یارانے

لُو کے تھپیڑے سہنے والے صحراٶں کے ٹیلے تھے

تابندہ تاروں کا تحفہ صبح کی خدمت میں ‌پہنچا

رات نے چاند کی نذر کیٸے جو تارے کم چمکیلے تھے

سارے سپیرے ویرانوں میں گھوم رھے ہیں بین لیے

آبادی میں رھنے والے ، سانپ بڑے زہریلے تھے

تم یونہی ناراض ھوئے ھو ورنہ مٸے خانے کا پتہ

ھم نے ھر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

کون غلام محمّد قاصر ، بے چارے سے کرتا بات

یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930