گوشہ ء غالب ۔۔۔۔ راشد جاوید احمد

نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا

 کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر ک

غالب کا یہ شعر سر مطلع ء دیوان ہے۔ نقش کنایہ ہے مخلوقات سے، تحریر کنایہ ہے تخلیق سے، شوخی کے کئی معنی ہیں، شرارت دل لگی، گستاخی۔ رعنائی ، دلکشی۔غالب نے ایک خط میں خود اس شعر کا مطلب بیان کیا کہ ایران میں یہ رسم تھی کہ درخواست گزار کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے دربار میں عرض گزارنے جاتا تھا، با لکل ایسے جیسے دن کے وقت شمع روشن کرنا یا بانس پر خون آلود کپرا لٹکا کر لے جانا۔

نقش، شوخی تحریر کا فریادی ہو نہ ہو، غالب کا یہ شعر ان کی شوخی فکر کا بلا شک و شبہ آیئنہ دار ہے۔ اگرچہ انہوں نے عام شعرا کی طرح اپنے دیوان کا آغاز حمد سے ہی کیا ہے مگر یہاں بھی اپنی شوخی طبع کا ثبوت دیا ہے۔ حمد کے پردے میں خدا سے گلہ کیا ہے کہ اے خدا، جب تو نے ہر مخلوق کو فنا کے لئے پیدا کیا تو پیدائش میں اسقدر کمال کا اظہار کیوں کیا۔ گویا ، جب ہست کر کے مٹانا ہی مقصود تھا تو ہست کرنا کیا ضروری تھا ؟ دیگر یہ کہ ہر مخلوق، تخلیق کار کے کمال کی گواہ ہوتی ہے اور غالب کا یہ کہنا ہے کہ یہ کیسی کمال کی تخلیق ہے جسکو ثبات ہی حاصل نہیں۔ ہستی موجب آزار ہے لیکن ہر شخص کو ہستی سے پیار بھی ہے۔ ہر انسان فانی ہے لیکن اسے بقا کی آرزو بھی ہے ۔ ہر شئے کی تعمیر میں تخریب کا سامان بھی پوشیدہ ہے۔

 اس شعر میں غالب نے اپنا نظریہ حیات پیش کر دیا ہے کہ ہستی خواہ وہ اختیاری ہی کیوں نہ ہو بہر حال موجب آزار ہے۔ بنیادی تصور یہی ہے کہ ہستی موجب رنج و ملال ہے۔غالب کے  جرمن ہمعصر شوپنہار نے بھی ہستی کے متعلق یہی نظریہ پیش کیا کہ ہستی سراپا کشمکش، اذیت اور دکھ سے معمور ہے۔ شوپنہار نے شاید یہ نظریہ بدھ دھرم سے لیا جسکی بنیادی تعلیم سردم دکھم ہے، یعنی ساری کائنات یا ہستی سراسر دکھ اور موجب آزار ہے۔ فارسی کے مشہور شاعر اور غالب شناس جناب نظم طباطبائی نے اس شعر کو بے معنی قرار دیا ہے لیکن مجھے اس سے اتفاق نہیں۔ کسی شخص کواس نظریئے سے اختلاف تو ہو سکتا ہے جو غالب نے اس شعر میں پیش کیا ہے لیکن شعر کو بے معنی کہنا کسی طرح بھی صحیح نہیں۔ غالب کے اس نظرئے کی تایئد میں  کچھ اور اشعار بھی دیکھئے

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں :: موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج :: شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ بچیں کہاں کہ دل ہے :: غم عشق گر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا

(راشد جاوید احمد)

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031