روشنی کا ذائقہ ۔۔۔ گل جہاں
روشنی کا ذائقہ
گل جہاں
روشنی کا کوئی ذائقہ یاد ہے تو بتاؤ
اس آواز کا رس
وہ مرکوز آنکھیں
وہ بیلیں وہ بے رنگ و بو پھول
میلوں تلک پھیلے جنگل کی بانہیں
جہاں پر پرندے صفوں میں محبت کے سجدوں کے گُر سیکھتے تھے
وہ مٹی کے برتن تو بھولے نہ ہوں گے
جنھیں رزق کی نسل پر آنے والی مصیبت کی ساری خبر تھی
کہانی میں گاؤں تھا
دریا کنارے پہ آبادیاں تھیں
ذرا ذہن پر زور دے کر بتاؤ
کنویں پر کھنکھتی ہوئی چوڑیوں کی زباں کونسی تھی
سرِ شام چوکوں پہ کتوں کی بے نام کچھ ٹولیاں
تم کو پہچانتی ہیں
مگر صرف چہرہ !
کوئی نام
گھر
خاندانی علاقہ نہیں جانتی ہیں
کہ وہ ساری بے نام سی ٹولیاں ہیں
ادھر بھی تو دیکھو
میری سبز آنکھوں کو چکھو
بتاؤ ۔۔۔۔!
یہاں سے نیا خواب کتنے زمانوں پرے ہے!
بصارت کے یہ سلسلے
قاش در قاش نوکیلے کاٹے ہوئے واہمے ہیں
عجب آدمی ہو!
کسی زاویے سے نہیں کھل رہے ہو
اندھیرے سے مانوس لگتے ہو لیکن
دیے کی لڑی جانتے ہو
میں اب آخری بار پھر پوچھتا ہوں
اگر روشنی کا کوئی ذائقہ یاد ہے تو بتاو
مجھے یہ خبر ہے
محبت کی تم ہر کڑی جانتے ہو
بتا دو اگر روشنی کا کوئی ذائقہ یاد ہے تو
کوائف کی علّت دماغی بنائی ہوئی ہے
اور اک تم!
فقط دل کے صیغہ جلی جانتے ہو