یہاں شہنایئاں کیسی ۔۔۔ گلناز فیروز خان

یہاں شہنائیاں کیسی

( گلناز فیروز خان )

یہاں شہنائیاں کیسی؟
یہاں تو خون بہتا ہے
یہاں پر گم شدہ لڑکی نہیں ملتی
یہاں مریم کا ابا روز مرتا ہے
یہاں واجد کو اپنی بہن کی صورت نہیں ملتی
یہاں اب لاشے دریا برد ہوتے ہیں
یہاں آنچل کی قیمت روز گرتی ہے
وہاں پر آبرو محفوظ کیسے ہو
جہاں دیوار وحشی ہو
جہاں سائیں ڈرونی ہو
یہاں اب کوئی پنچھی اڑ نہیں سکتا
ہمارے پربت اب بے آسرا ہیں سب
کوئی نختر نہیں موجود
صنوبر کے شجر زخمی ہیں اب سارے
وہ ننھی شوخ مینا اب نہیں آتی
یہاں اب بچیاں گانا نہیں گاتیں
یہاں ڈھولک کا بجنا خوف سا ہے اب
یہاں تندور پر اب جھنڈ نہیں ہوتا
یہاں حجرے پریشاں ہیں
یہاں بازار اب سنسان کھنڈر ہے
یہاں پھولوں کی قلت ہے
یہاں بارود ہر سو ہے
یہاں پر روح نوچتے ہیں
یہاں پر جسم ننگے ہیں
یہاں بس شور ہوتا ہے
امر کا زور ہوتا ہے
یہاں کاغذ قلم سے پھاڑ جاتا ہے
یہاں پر امن کا مفہوم بدلا ہے
یہاں کی رات  لمبی ہے
یہاں سورج نہیں آتا
فلک پر چاند بھی اترا سا لگتا ہے
یہاں تارے بھی تھوڑے ہیں
یہاں پر موت مرتے ہیں
یہاں ماتم کا عالم ہے
یہاں شہنائیاں کیسی

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930