روزن ۔۔۔ حسن امام
روزن
حسن امام
” ابے سالے کیا کرتا ہے”
جسیم چپراسی کی پاور ہارن جیسی آواز چودہ سالہ معید کے کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی طرح اُتر گئی ۔ اس کے کان تپ کر سرخ ہوگئے ۔ پھر یہ سرخی چہرے پر پھیل گئی اور ایک سنسنا ہٹ سی گردن سے گزرتی ہوئی سینے میں اُترنے لگی ۔ غصے سے اس کا سارا جسم کانپنے لگا ۔ ہر چند کہ اس کے کچے پکے ذہن میں گالیوں کے اس ڈرون حملے کی مار کی وسعت کا ادراک نہ تھا لیکن اتنا وہ سمجھتا تھا کہ یہ کوئی بڑی گالی ہے ، اور اگر گالی چھوٹی بھی ہوتی تو اس کا غصے میں آ جانا ایک فطری رد عمل ہوتا ۔ ایک چپراسی کی یہ ہمت کہ وہ پرنسپل کے بیٹے کو گالی دے ۔ اس نے تو صرف اتنا کیا تھا کہ مولیوں کی کیاری میں چھڑی گھماتی تھی اور ایک پودا ٹوٹ گیا تھا ۔ یہ کیاری اسکول کی سرخ عمارت کے مشرقی پہلو والے لان میں تھی جس کے ایک طرف ذرا سے فاصلے پر مسجد تھی اور دوسری طرف ایک کمرے کا چھوٹا سا گھر جس میں جسیم اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا ۔ گھر اور مسجد کے درمیان ایک وضو خانہ تھا ۔ مسجد میں صرف ظہر کی نماز ہوتی تھی اور وہ بھی اسکول کے کھلے ہونے کی صورت میں ۔
جون کی ڈھلتی ہوئی گرم دوپہر کے سناٹے نے سارے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا ۔اسکول کے احاطے میں موجود لوگ اپنے اپنے گھروں میں بند یا تو سو رہے تھے ، یا کروٹیں بدل رہے تھے ۔ بس ایک چپراسی تھا جو اپنے گھر کے برآمدے میں اکڑوں بیٹھا اُلٹے ہاتھ میں آئینہ اور سیدھے میں چھوٹی سی زنگ آلود قینچی پکڑے اپنی مونچھیں درست کر رہا تھا ۔ ہر اتوار کو اس کا یہی معمول تھا ۔ اس کی بیوی کمرے میں سو رہی تھی ۔ سانولے رنگ کی مضبوط ہاتھ پاؤں والی یہ عورت جسیم سے بہت مختلف تھی ۔ وہ معید کو کبھی کسی بات پر ٹوکتی نہیں تھی ۔ اکثر اسے دیکھ کر مسکراتی تھی اور کبھی کبھی اسے مکئی کی روٹی ، سرسوں کے ساگ یا اچار کے ساتھ کھلاتی تھی ۔ معید کو وہ بہت اچھی لگتی تھی ۔ اسے دیکھ کر اُسے اپنی چھوٹی ماں یاد آ جاتی تھی ۔ وہ بھی اسے دیکھ کر مسکراتی اور اکثر اسے اچھی اچھی چیزیں کھلاتی تھی ۔
اس کی چھوٹی ماں پرنسپل صاحب کی تیسری بیوی تھی ۔ پرنسپل صاحب کی عمر تقریباً پچپن سال تھی ۔ نکلتا ہوا قد ڈھلتی عمر کی فر بہی میں ذرا دب گیا تھا ۔ چہرے کی سرخ و سفید رنگت میں سفید خشخشی داڑھی دور سے نظر نہیں آتی تھی ۔ پتلون اور قمیض میں خاصے چست اور توانا لگتے تھے ۔ ان کے والد شہر کے نواحی علاقے میں بڑے مانے ہوئے پیر تھے اور بڑی زمین اور جائداد کے مالک تھے ۔ علاقے کے زیادہ تر لوگ ان کے مرید تھے ۔ ہر چند کہ بیٹے نے جدید تعلیم حاصل کی تھی اور درس و تدریس کے پیشے سے منسلک تھے لیکن باپ کے انتقال کے بعد بلا تامل ان کی گدی سنبھال لی تھی ۔ روپیہ پیسہ اور زمین و جائداد کے علاوہ مریدوں کی ایک بڑی تعداد بھی انہیں ورثے میں ملی تھی ۔ انہی میں ایک ایسا مرید تھا جس سے انہیں خاص تعلق خاطر تھا ۔ وجہ ان کی دو خوبصورت بیٹیاں تھیں ۔ جب بڑی بیٹی کے ساتھ ان کا نکاح ہوا تو دوسری بیٹی کے لیئے انہوں نے کہا کہ ابھی اس کی شادی کی فکر نہ کی جائے ، ابھی مناسب وقت نہیں آیا ۔ اس دوران اس کے سارے اخراجات وہ اپنی جیب سے ادا کریں گے ۔ مرید نے اس کو حکم جانا اور اس پر عمل کرنے کو عین سعادت سمجھا ۔
پانچ سال کی مدت میں پہلی بیوی دو بیٹے ان کے حوالے کر کے اللہ کو پیاری ہو گئی ، تب انہوں نے دوسری بہن سے نکاح کر لیا ۔ دوسری بیوی بھی دس سال کے بعد داغ مفارقت دے گئی ۔ اسی طرح ہوتے ہوتے اٹھارہ سالوں میں انہوں نے تین شادیاں کیں ۔ پہلی دو بیویوں سے ان کے چار بیٹے تھے ، بڑا سولہ اور چھوٹا نو سال کا ۔ تیسری شادی کو تین سال ہوئے تھے اور اس بیوی سے ان کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔ ویسے تو پرنسپل صاحب ہر طرح سے مطمئین تھے لیکن کسی کسی وقت ان کے دل میں ایک نا معلوم سی خلش سر اُٹھانے لگتی ، وہ لاکھ کوشش۔ کے باوجود اس کی طرف سے اپنا دھیان ہٹا نہیں سکتے تھے ۔ بیوی کی نو عمری ، اپنی ڈھلتی ہوئی عمر اور بچوں کی بالیدگی ایسی واضح حقیقتیں تھیں جن سے وہ نظریں نہیں چرا سکتے تھے ۔ بچے آخر کب تک بچے رہتے ۔ بڑا بیٹا میٹرک کر کے کالج میں پہنچ چکا تھا اور ہوسٹل میں رہتا تھا ۔ باقی تین بچے اپنی تیسری ماں کے ساتھ اسکول سے ملحق گھر میں ہمجولیوں کی طرح رہتے تھے ۔ تھی تو یہ خوشی کی بات لیکن اس خوشی میں بھی ایک زیریں رو وسوسے کی چل رہی تھی ۔ معید کی مسیں اب بھیگ چلی تھیں ۔ یہ دیکھ کر انہیں اپنی نو عمری کا زمانہ یاد آجاتا ۔ انہیں جھر جھری سی آ جاتی ۔ باپ پر پوت ، پتا پر گھوڑا کی مثل ان کے ذہن میں پھرنے لگتی ۔ چنانچہ بہت غور فکر کے بعد انہوں نے یہ حل نکالا کہ بڑے بیٹے کو ہاسٹل سے گھر بُلا لیا اور چاروں بیٹوں کے لیئے انہوں نے پڑوس کی ایک سن رسیدہ غریب عورت کو ان کی نگرانی اور کھانے پینے کی ضروریات کے لیئے مامور کر دیا ۔ خود اپنی بیوی کے ساتھ شہر کے نواحی علاقے میں واقع اپنی حویلی میں منتقل ہو گئے ۔ تینوں بچے دن بھر اسکول میں ان کے سامنے ہوتے ، دوپہر تک بڑا بیٹا بھی آ جاتا ۔ اسکول سے چھٹی کے بعد وہ کچھ وقت بچوں کے ساتھ گزارتے اور پھر اپنی حویلی چلے جاتے جو ایک گھنٹیےکی مسافت پر تھی ۔ درس و تدریس سے دلچسپی کی وجہ سے وہ اسکول چھوڑنا نہیں چاہتے تھے ۔ زندگی کا یہ معمول اطمینان کی ڈگر پر چل نکلا ۔
مانوس ماحول میں رہنا اور نئے ماحول میں رہنا دو الگ الگ باتیں تھیں ۔ ان کے بیٹوں کو دیس نکالا سا محسوس ہوتا تھا ۔ پھر بھی بڑے نے بڑے لڑکوں سے دوستی کر لی تھی ، چھوٹوں نے چھوٹے دوست بنا لیئے تھے لیکن معید کی کسی سے نہیں بنتی تھی ۔ وہ کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ڈولتا پھرتا ۔ اس کے اندر ایک عجیب سی بے چینی تھی ، اس کا اظہار بد مزاجی اور ترش روئی کی صورت میں ہوتا تھا جس کے سبب لڑکے اس سے دور رہتے تھے ۔ اسکول کا خوشگوار ماحول بھی اس کے مزاج پر اثر انداز نہیں ہو سکا تھا ۔ وہ ہر وقت ایک گھٹن کی سی کیفیت میں گرفتار رہتا ۔ اسے لگتا ، وہ ایک کمرے میں بند ہے جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ۔ اسے اپنی ذات کے گُھپ اندھیرے میں کسی روزن کی تلاش تھی جو اندر کے حبس اور اندھیرے کو باہر نکال سکے ۔ شاید یہی بے چینی تھی جس ک وجہ سے وہ اُلٹی سیدھی حرکتیں کرتا تھا ۔ آج بھی جو پودا اس سے ٹوٹا تھا وہ اسی کیفیت کا اثر تھا ۔ اور اس کی وجہ سے اسے چپراسی کی گالی سننی پڑی تھی ۔ وہ اس پر کسی طرح اپنا غصہ نکالنا چاہتا تھا ، مگر کس طرح ، یہ اس کی سمجھ سے باہر تھا ۔ وہ ٹہلتا ہوا وضو خانے سے گزر کر مسجد کی راہداری پر ہو لیا ۔ پھر پلٹ کر اسی طرح ٹہلتا ہوا جا کر جسیم کے سامنے کھڑا ہوگیا ؛
” تم نے مجھے گالی دی ہے ۔ کل میں پرنسپل صاحب سے کہوں گا ”
” پرنسپل میرا کیا بگاڑ لیں گے ” جسیم نے بر جستہ جواب دیا ۔
یہ فقرہ اس کے منہ پر تھپڑ کی طرح لگا ۔ چپراسی کی زبان وہ اچھی طرح سمجھتا تھا ۔ اس فقرے نے اس کے ساتھ ساتھ اس کے باپ کی بھی بے عزتی کر دی تھی ۔ اس کا بس چلتا تو تو اسے پیٹ کر رکھ دیتا لیکن بے بس تھا ۔ اس کی نگرانی کا اختیار اس کے باپ نے چپراسی کو بھی دے رکھا تھا اور وہ تھا بھی ان کا بہت منہ چڑھا ۔ وہ مزید کہنے لگا ” پرنسپل صاحب تم لوگوں کو میرے حوالے کر کے گئے ہیں ”
” کیا تم بڈھے ہو کر بچے کے پیچھے پڑے ہوئے ہو ” اس کی بیوی نے دروازے سے سر نکال کر اُسے ٹوکا
اس جملے سے معید کو ذرا ڈھارس ملی اور اس نے پلٹ کر اسکول کے بر آمدے کا رخ کیا ۔آہستہ آہستہ چلتا ہوا وہ اسکول کے تینوں اطراف کے برآ مدوں سے گزر کر جب دوبارہ اس بر آمدے میں آیا تو جسیم اپنی جگہ پر نہیں تھا ۔ یقیناً وہ گھر کے اندر تھا کیونکہ اندر سے اس کی بیوی کے غصے میں زور زور سے بولنے کی آواز آ رہی تھی ۔آواز واضح نہیں تھی ، صرف ماں اور بہن کے الفاظ اس کی سمجھ میں آ رہے تھے ۔ وہ بر آمدے سے اتر کر آہستہ آہستہ کیاریوں کے ساتھ چلتا ہوا کمرے کے ذرا قریب ہو گیا ۔
کچھ ہی دیر بعد جسیم پوری تیاری کے ساتھ باہر نکلا ۔ صاف ستھرے کپڑے ، بالوں میں تیل ، آنکھوں میں سرمے کی لکیر ، مونچھیں بھوری رنگی ہوئی ۔ اس کے پیچھے پیچھے اس کی بیوی بھی باہر نکل آئی تھی ۔ اس کا چہرہ تمتمایا ہوا اور آنکھوں میں نا آسودگی کی تھکن تھی ۔ جسیم بر آمدے سے اتر کر اسکول کے بڑے گیٹ کی طرف چل پڑا ۔ اس کے چہرے پر ایک کھسیانی سی مسکراہٹ تھی جو بیوی کی بک بک جھک جھک کے جواب میں تھی ، جس کو ان سنا کر کے وہ قدم آگے بڑھائے چلا جا رہا تھا ۔
” جا مر جا کر وہیں ” اس کی بیوی چلا کر بولی ۔ جسیم نے برا ماننے کی بجائے مُڑ کر اسی مسکراہٹ کے ساتھ اس کی طرف دیکھا اور جلدی جلدی چلتا ہوا گیٹ سے باہر نکل گیا ۔
” یہ کہاں جا رہا ہے ” معید نے اس کی بیوی سے پوچھا جو ذرا ہی فاصلے پر کھڑی تھی ۔
” جا رہا ہے چکلے ، اپنی بہن کے پاس ” اس نے کڑوے کسیلے لہجے میں جواب دیا
” وہاں اس کی بہن رہتی ہے ؟ ” اس نے بڑی سادگی سے سوال کیا ۔ اسے پتہ نہیں تھا کہ چکلا کسے کہتے ہیں اور یہ بہن کون ہے ۔
اس سوال پر جسیم کی بیوی کے چہرے کا تناؤ ڈھیلا پڑ گیا اور اس پر جیسے ہنسی کا ایک سایہ سا گزر گیا ۔ وہ غور سے اس کے چہرے کو دیکھنے لگی جیسے پہلے کبھی نہ دیکھا ہو ۔ اس کی مسیں بھیگ رہی تھیں ۔ پھر اس نے اوپر سے نیچے تک دیکھا ۔ وہ قد کاٹھ میں جسیم سے تھوڑا ہی کم ، لیکن ٹھیک ٹھاک مضبوط ہاتھ پاؤں کا مالک تھا ۔ وہ کچھ سوچتی ہوئی اسے دیکھتی رہی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے چہرے کی کیفیت تبدیل ہونے لگی ۔ اس کے اس طرح دیکھنے سے اسے ذرا خفت سے ہوئی ۔
” یہ تم مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہی ہو ؟ ” اس نے اپنی خفت پر ہنسی کا پردہ ڈالنے کی کوشش کی ۔ آج وہ پہلی بار اسے کچھ بے ترتیب لباس میں دیکھ رہا تھا ۔
” بڑے بدھو ہو معید بابو ۔ تمہیں چکلے کا نہیں پتہ ؟ ”
” نہیں تو ۔”
” جاننا چاہتے ہو ؟ ”
” ہاں بتاؤ ۔ ”
” ذرا ادھر آؤ ” یہ کہتی ہوئی وہ جا کر اپنے دروازے میں کھڑی ہو گئی ۔ وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا اس کے قریب پہنچا تو وہ اندر ہو گئی ۔ معید دروازے پر جا کر رک گیا ۔
” آ جاؤ ۔” اس نے بے تکلفی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور ہولے سے اندر کھینچا ۔ معید نے جھجھک کر ذرا تامل کیا اور اس کے چہرے کو دیکھنے لگا جس پر ایک شرارت آمیز مسکراہٹ کھیل رہی تھی ۔ اس کے ہاتھ پر کھنچاؤ بڑھتا رہا ۔ وہ دیکھتا رہا ۔۔۔اور دیکھتے دیکھتے ایکدم سے اس کے سینے کے اندر ایک گھڑی سی تیزی سے چل پڑی ۔۔۔۔ساتھ ہی اس کے قدم بھی آگے بڑھ گئے ۔۔۔اور اس کے پیچھے دروازہ ہولے سے بند ہو گیا ۔۔۔۔ باہر چاروں طرف گرم سناٹے کا سکوت طاری تھا ۔۔۔۔