آزادی ۔۔۔ حرا ایمن
آزادی
( حرا ایمن )
اس
شب جو میں جاگا
اپنی پسلی سے کدو کی بیل کی مانند ایک آنول جڑی دیکھی
مُجھ سے جڑی وہ سنہری بالوں والی
میری ہم ذات
آنکھیں پھاڑ پھاڑ مجھے دیکھ رہی تھی
مُسکرا کر اسکو جو دیکھا
تو شرماتی لجاتی اپنی گھنی زلفوں کے
پیرہن میں چھپ گئی
آنول کو گھوڑے کی چابک کی طرح
لہرایا
وہ مُجھ سے ٹوٹ کر میری گود میں آ
گری
میں چہلیں کرتے ہوۓ اسکو گدگدانے
لگا
اُسکے سینے کی ہم واری کو گٹھوں میں
ناپنے لگا
عدن کے ویرانے میں بس وہی گوہر
نایاب تھی
جاذب نظر حوا
میری ، صرف میری حوا
میرا
دل چاہا
ہمارے سوا ساری جنّت فنا ہو جائے
ہمیں بقا رھے باقی سب فنا ہو جائے
اس خواہش نے اتنا سر اٹھایا
کہ میں نے حوا کی قربت کی خاطر
پہلی بغاوت کی ٹھانی
دن رات سجدہ کرتے فرشتوں سے
جان چھڑوانے کی ٹھانی
کُچھ دور
فردوس کی دیواروں پر ابلیس کے مطب
کا پتہ درج تھا
ابلیس کے دوا خانہ سے
میں سیب لے آیا
کیا کہا ؟
حوا نے مجھے سیب کھلایا؟
حوا کو کب اتنی آزادی کہ وہ محرم کے
بغیر گھر سے نکلتی
وہ میں ہی تھا
میں ہی لے کر آیا
لال لال سیبوں کی وہ پیٹی
جس پر کھانا منع ہے کے اسٹیکر لگے
تھے
میں نے چپکے سے فرشتوں کی نظر بچا
کر
ایک قاش حوا کو دی
پھر حوا ہمیشہ کیلئے میری ہوگئی
مجھے میری جنّت مل گئی
A very different angle from previously propagated myths. I think another leap towards feminism in Pakistan. But I really liked it. Hope to read your more poetry very soon.