ایک لمحہ کافی ہے ۔۔۔ حسین عابد
ایک لمحہ کافی ہے
( حسین عابد )
کسی اجنبی، نیم وا دریچے سے
کھنکتی
ہنسی پر ٹھٹھکتے
محبوب آنکھوں میں جھانکتے
پکی خوشبو
اور معصوم آوازوں کے شور میں
بدن سے دن کی مشقت دھوتے
یا کھلے، وسیع میدان میں بہتی
ندی کے ساتھ چلتے
جس کے کناروں کی گھاس
پانی میں ڈوب رہی ہو
وقت کی دھڑکتی تھیلی میں پڑا
ابدی مسرت کا لمحہ
جو سارے مساموں سے پھوٹ نکلے
ایک گہرے دوست جیسا
جو کبھی جدا نہ ہو
ایک جگنو جیسا
جو گھمبیر رات میں چلتے
اچانک تمہارے سامنے آنکلے
ایک لمحہ کافی ہے
Facebook Comments Box