غزل ۔۔۔ اقبال ساجد
غزل
(اقبال ساجد )
کل
شب دلِ آوارہ کو سینے سے نکالا
یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا
یہ
فوج نکلتی تھی کہاں خانہءِ دِل سے
یادوں کو نہایت ہی قرینے سے نکالا
میں
خون بہا کر بھی ہوئا باغ میں رُسوا
اُس گُل نے مگر کام پسینے سے نکالا
ٹھہرے ہیں زر و سیم کے حقدار تماشائی
اور مارِ سیاہ ہم نے دفینے سے نکالا
یہ
سوچ کے ساحل پہ سفر ختم نہ ہو جائے
باہر نہ کبھی پائوں سفینے سے نکالا
Facebook Comments Box