کیا کبھی دیکھا ہے ۔۔۔ افتخار بخاری
کیا کبھی دیکھا ھے
افتخار بخاری
کیا کبھی دیکھا ھے
مقدس دوپہروں میں
بوڑھی عورتوں کو
قطاروں میں
محافظوں کو تلاشی دے کر
مین گیٹ پار کر تے ھوئے
جہاں نوازے ھوئے تکبر
سخاوت کرتے ھیں
تھوڑا سا آٹا،
تھوڑا سا گھی
سردی سے کپکپاتے بچے
سویر کے کاٹتے کہرےمیں
قیمتی گاڑیاں دھوتے ھوئے،
صاف ستھرے بچوں کے رنگین
بھاری بستے،
ان میں رکھتے ھوئے
کیا ننھی نوکرانیاں دیکھی ہیں
چند ھزار میں خریدی ھوئیں،
بدمعاش بڈھوں کو
ان کی چٹکیاں لیتے ھوئے
جب ان کے خیال میں
وہ دیکھے نہیں جا رھےھوتے
کیا اجتماعی شادیاں دیکھی ھیں
جب وہ غلاموں کی افزائش نسل کا
گھنائونا کھیل کھیلتے ھیں
کیا چلچلاتی دھوپ میں کھڑی
بیمار مزدور عورتیں دیکھی ھیں
ثروت مندوں کے دروازوں پر
کھلنے کے انتظار میں
اگر نہیں دیکھا
تو معاف کیجئے گا
آپ ایک غریب آدمی ھیں
غریبوں کے محلے میں رھنے والے ۔