پہلی لڑکی ۔۔۔ عصمت چغتائی
پہلی لڑکی
( عصمت چغتائی )
جب صبح ہی صبح جھکی ہوئی نظروں سے ماتھے پر ذرا سا آنچل کھینچ کر حلیمہ نے بیگم کو سلام کیا تو ان کی باچھیں کھل گئیں، خیر سے صاحبزادے کی طرف سے جو جان کو دھگدا لگا ہوا تھا۔ وہ تو دور ہوا۔ فورا دریائے سخاوت میں ابال آگیا چھ جوڑے جو اسی مبارک موقعے کے لیے تیار رکھے تھے۔ عنایت ہوئے۔ ہاتھوںمیں نوگریاں، گلے میں ٹھسی اور طلائی ایران،جو صنوبر کی موت کے بعد چھوٹے میاں کی باندی کے لیے سینت لیے گئے تھے اپنے ہاتھ سے بیگم نے دے دئیے تیل، پھلیل، سرمہ، مسی اور اب تو نگوڑے پائوڈر کا بھی فیشن چل گیا ہے۔ سب ہی کچھ مہیا کیا گیا صاحبزادے کو رنڈی میں بیگم کا مزہ ملنا چاہیے۔ باجرے کی روٹی بھی اگرچہ گھی سے کھائی جائے تو پراٹھوں کا لطف دیتی ہے۔
منہارن بی نے سرخ سبز چوڑیاں پہنائیں، غریب حلیمہ گھٹنوں میں سردئیے بیٹھی رہی۔ منہارن بی کی گندی گندی دعائوں پر پانی پانی ہوئی جارہی تھی۔ مردان خانے سے ملحقہ چھوٹا سا گھر چھمن میاں اور ان کی باندی کے لیے جھاڑو پونچھ کر سنوارا گیا۔۔۔ باندی بھی عارضی بیوی ہوتی تھی۔ صاحبزادے کی خدمت گزاری سے جو وقت ملتا وہ سلائی کڑھائی اور گھر کی سجاوٹ میں صرف ہوتا۔ بھاری کام نہیں لیے جاتے زیادہ سے زیادہ گلوریاں بنا دینا، پان دھونا، سپاری کتر دینا، اپنے کپڑوں کے علاوہ میاں کے کپڑے دھوبی کو دینا لینا، کاج بٹن کا خیال رکھنا، غسل کروانا اور ایسے ہی ہلکے پھلکے کام۔ تبھی تو باقی چھوکریاں نواب زادوں کی باندیوں کو بڑے رشک کی نگاہ سے دیکھا کرتیں، باسی سڑے کھانوں کے بجائے صاحبزادے کے ہاتھوں ترنوالے ملتے تھے۔ صاف ستھرا بستر، اپنے کام کے بعد مزے سے پیر پھیلائے سوئے اور چھمن پر تو سب لونڈیاں مرتیں تھیں۔ بالکل اللہ میاں کی گائے تھے کبھی کسی کو ننگی ننگی نظروں سے گھورا تک نہیں۔ سب ہی کو ارمان تھا کہ اللہ ان نے نصیب میں بھی چھمن سرکار جیسا نواب زادہ لکھا ہو۔ گویوں نے پکڑ کر اسے سچ مچ دلہن بنا ڈالا۔ مہندی لگائی، خوب مل مل کرنہلایا، نگوڑی رو پڑی ۔ گندہ دھن چھوکریوں نے اس کی دھجیاں بکھیر دیں۔
چھمن میاں کی خوشی تو نجم بٹیا کے ہار پھول سے بھی بڑھ چڑھ کر ہوئی۔ زور دار رت جگا ہوا۔ نایاب بوبو مسجد میں طاق بھرنے گئیں۔ مقطع داڑھی دار مولوی نے میلاد مبارک پڑھا۔ رات کو شاندار دعوت ہوئی۔ گھر میں مراثنیں اور باہر قوال آئے۔ بڑے سرکارتو مجرے کی بھی ضد کر رہے تھے مگر ان کی منہ چڑھی رنڈی کسی شادی میں گئی ہوئی تھی۔ تو پھر شادی کے سرکیا سینگ ہوتے ہیں! سچ پوچھئیے تو کیا نہیں ہوا۔ جہیز بھی ملا۔ منہ دکھائی ہوئی۔ بس نکاح کے دو بول نہیں پڑھے گئے۔ ویسے چھمن میاں تو ہر سانس میں نکاح کے وعدے کرتے ہیں، مگر نایاب بوبو کا کہناہے۔
’’ان نواب بچوں کے وعدے پانی کا بلبلہ ہوتے ہیں۔ ویسے بنو جویتیں کھانے کا شوق ہو تو نکاح کرلو نکاح۔ ایک چھوڑ دس کرو، پر رہوگی باندی کی باندی۔۔۔ بیگم بننا تھا تو کسی نواب زادی کی کوکھ سے جنم لیا ہوتا‘‘۔
شیر مال، شامی کباب اور بریانی کھا کر بیویاں گلوں میں گلوریاں دبا کر گائوتکیوں کے سہارے ہو بیٹھیں تو اللہ رکھے چھمن میاں اور خرمہ بٹیا کی شادی کا ذکر نکل آیا۔ حلیمہ، جو پاس بیٹھی گلوریاں لگا رہی تھی کتھے کی چمچی چونے میں اور چونے کی کتھے میں ڈالتی رہی۔ مریم باجی کی سالگرہ بھی اچانک ہوگئی۔ ویسے تو وہ جون میں پیدا ہوئی تھیں۔ لیکن نومبر کوئی بہت فاصلے پر نہ تھا۔ دراصل یہ دعوت انیس میاں کے کہنے پر ہوئی تھی۔ وہ مریم کے لیے ایک بہت لائق لڑکا ڈھونڈ کر لائے تھے، آج اسے ایک شاندار دعوت کے بہانے سے مریم سے ملایا جارہاتھا۔
مریم سفید جھاگ سی ساڑھی میں واقعی کوئی مقدس روح لگ رہی تھی آج ان کی رنگت موم جیسی بے جان ہو رہی تھی۔ آنکھوں میں انجانی اداسیاں تھیں۔ فرید احمد اسے مسحور ہو کر تک رہے تھے۔ نہ جانے انیس نے مریم کے کان میں کیا کہہ دیا کہ آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ وہ شادی کے لیے تیار نہیں تھیں۔ فرید احمد کو انیس گھیر کر لائے تھے۔
’’مجھے شادی نہیں کرنا‘‘۔ مریم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا۔
’’اے لڑکی دیوانی ہوئی ہے تمہارے پاپا بہت اچھی سروس دلوا دیں گے۔ لڑکا غریب گھرانے کا ہے مگر سید ہے۔
’’وہ سید ہو یا شیخ، مجھے کسی سے شادی نہیں کرنا‘‘۔ وہ روتی ہوئی کمرے میں بھاگ گئی تھیں۔ حرمہ کی نگاہیں دروازے پر لگی تھیں۔ سب آچکے تھے، صرف منصور غائب تھے اور جب وہ میلی قمیص پہنے بالوں میں انگلیوں سے کنگھا پھیرتے بھری محفل میں آن دھمکے تو جی ہی جی میں اس کی سبکی ہو گئی۔
’’اے لڑکے کہاں غائب تھا؟ ایسی کون سی نوکری ہے کہ دن ہے تو کام رات ہے تو کام۔ آج اتوار کو بھی کام تھا؟’’
’’اے ممانی بیگم نوکری نہ نوکری کی دم۔ بیگار ہے بیگار۔ تنخواہ نہیں ملتی‘‘۔ افضل میاں نے تشریح کی۔
’’اوئی خدا کی مار اس نوکری پر شاید اپنی مستقل نہیں ہوئے؟‘‘
’’اکابی تنخواہ کا تو ذکر ہی نہیں۔ مستقل ہوکر بھی نہیں ملتی‘‘۔
’’اے لوگو یہ کیسا اندھیرا ہے لڑکا دن رات کام میں جٹا ہوئے ہے اور کوڑی نہیں ملتی۔ اے بھیا کیا اللہ واسطے کا کام ہے؟‘‘
’’اللہ واسطے کا کیوں شیطان واسطے کا کہو۔ یہ جو آئے دن شہر میں لاٹھی گولی چلتی ہے یہ ان ہی کی عنایت کا نتیجہ ہے‘‘۔ حیدر چچا نے قہقہہ لگایا۔
’’اے تو یوں کہو پولیس میں ہے۔ پر بھیا پولیس میں تو بڑی آمدنی ہے‘‘۔ ایک چندھی سی نانی اماں بولیں۔
’’اے اکا بی تم ٹھہریں سدا کی کوڑھ مغز، تمہارے پلے نہیں پڑے گی یہ بات‘‘۔
’’کاہے تو سرکھپا رہی ہو؟ مزے سے چھالیا کاٹو چھالیا‘‘۔
’’اکابی یوں سمجھو کہ پولیس کی لاٹھیوں کے لیے کھوپڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بس یہ لوگ کھوپڑیاں تھوک میں سپلائی کرتے ہیں‘‘۔ حیدر چچا بولے۔
’’اے ہے لڑکے یہ کیا سڑپٹا ہے۔ڈھنگ کی کوئی نوکری کیوں نہیں ڈھونڈتا؟‘‘
اکابی بولے چلی گئی۔
’’آپ نوکر رکھ لیجئے اکابی۔ منصور نے اس کے پاس گھس کر کہا۔
’’اے چل دیوانے‘‘۔
’’سچ اکابی۔ آپ کا پاندان مانجھا کروں گا، وضو کا لوٹا بھرا کروں گا اور ۔۔۔ پان کٹی میں پان کو ٹ کر کھلایا کروں گا‘‘۔
’’کیا مطلب؟ کتنی نوکریاں تم اکیلے کرو گے؟‘‘
’’نہیں صاحب میں اکیلا نہیں کروں گا۔ یہی کوئی دو ڈیڑھ لاکھ نوکریاں دلوادیجئے۔ فی الحال کافی رہوں گا‘‘۔
’’آپ مذاق فرمارہے ہیں؟‘‘۔ حیدر چچا نہ طنز کیا۔
’’نوکری تمہیں چاہیے یا پورے شہر کو؟‘‘ مختار صاحب بولے۔
’’جی عرض تو کیا کہ دو ڈیڑھ لاکھ بیکار ہیں شہر میں‘‘۔
’’اماں گھاس کھا گئے ہو۔ کیا کسی نے ساری دنیا کا ٹھیکہ لیا ہے‘‘۔ افضل میاں چڑ گئے۔
’’اوہ، تو آپ کا مطلب ہے صرف مجھے نوکری دلوائیں گے؟‘‘
’’اور نہیں تو بقول افضل میاں ٹھیکہ نہیں لیا‘‘۔ حیدر چچا بولے۔
’’تو آپ نے میرا ٹھیکہ لیا ہے؟‘‘
’’ایں؟‘‘ چچا سٹپٹائے۔
’’یعنی کیا مطلب؟‘‘
’’بھئی، وہ ہم نے سنا ہے کہ تم۔۔۔ یعنی کہ تم اور ۔۔۔ ہمارا مطلب ہے حرمہ اور لاحول ولاقوۃ۔ اماں
افٗضل میں تم ہی تو کہہ رہے تھے کہ ‘‘
’’آپ کو مریم بی بلاتی ہیں‘‘۔ اس نازک موقعے پر بیرے نے آکر عزت رکھ لی اور منصور ’’معاف کیجئے گا‘‘ کہہ کر باہر آگیا۔
’’منصور میاں ہربات مذاق میں اڑا دیتے ہیں، آخرنوکری سے کیوں انکار ہے؟‘‘
’’انکار تو نہیں‘‘ منظور خود کونوابوں کے نرغے میں دیکھ کر سٹپٹا گیا۔
’’مل جائے تو کرو گے؟‘‘۔ حیدر چچا بولے۔
’’آ۔۔۔ آ۔۔۔ جی ہاں‘‘۔
’’بھئی نوکری حماقت ہے، پیسہ بنانا ہو تو بزنس کرو‘‘۔
’’خاص طور پر آپ کی بزنس‘‘۔ رشید نے دبی زبان سے کہا۔
’’یار رہنے دو جھاڑ کاکانٹا بن کر لپٹ جائیں گے‘‘۔ منظور نے کہنی ماری۔ پھر حیدر چچا سے کہا:
’’جی آپ بالکل درست فرماتے ہیں‘‘۔
’’اور تم چاہو تو انگلینڈ کی نیشنلٹی دلوا سکتے ہیں تمہیں‘‘۔
’’چچا آپ کیوں انگلینڈ جا کرنہیں رہتے؟‘‘۔ رشید نے پوچھا۔
’’یہ تمہار ی چچی اماں ہائے توبہ مچانے لگتی ہیں‘‘۔
’’اے ہے کون اتنی دور جا کے مٹی پلید کرائے۔ مرو تو فرنگیوں کے ہاتھوں عاقبت خراب ہو‘‘۔ چچی نے تشریح کی۔
’’بیگم اس کی تم چنتا نہ کرو، ہم انشاء اللہ پلین چارٹر کرا کے تمہاری میت لے آئیں گے‘‘۔
’’خدا نہ کرے، مریں اس کے دشمن۔ توبہ!‘‘ اکابی بگڑنے لگیں۔
’’اماں بزنس۔۔۔ ڈیم بورنگ۔۔۔ بنیا پن‘‘۔ منجھلے ماموں اپنی نویلی انگریز بیگم کے ساتھ آتے ہی میدان میں کود پڑے۔پچھلے سیزن میں شملہ گئے تو ہتھے چڑھ گئیں، یہ کہیے یہ ان کے ہتھے چڑھ گئے۔ وہ انکے عزیز ترین دوست مسٹر رب کی بیوی تھیں۔ گرمیوں میں انہیں تو توڑ کرنا تھے۔ بیگم کو شملے بھیج دیا۔ وہ منجھلے ماموں یعنی لیفٹیننٹ مختار کے ہاں ٹھہریں۔ دل ہی تو تھا۔ آگیا، منجھلی ممانی کو طلاق دینی پڑی اور ایڈنا رب فی الحال تو ایڈنا مختارہیں۔
’’مردآدمی کے لیے توبس ایک ہی جوب ہے۔ ملٹری‘‘۔ منجھلے ماموں نے منصور کی پیٹھ پر ایک دھپ مارا۔
’’یار میں چلا‘‘۔ منصور نے چپکے سے رشید سے کہا۔
’’میاں وہ باڈی نکلے گی چند سال میں کہ کیا بتائیے۔ کیاسال آم توڑنے کی مگھی بنے ہوئے ہو‘‘۔ انہوں نے اس بھونڈے پن سے منصور کے لمبے قد کا مذاق اڑایا کہ حرمہ بٹیا جل کر رہ گئیں۔ بات آگے بڑھتی مگر اشرف مختار کو اسی وقت اس کمرے میں لے جانے کے لیے آگئے جہاں پینے پلانے کا سلسلہ چل رہا تھا۔ رشید اور منصور بھی کیوں چوکتے۔ وہاں بھی بحث چلتی رہی۔ دو تین پیک کے بعد منصور نے کہا۔
’’اچھا صاحب میں نوکری کے لیے تیار ہوں، فرمائیے کتنے لوگو ں کو آپ نوکریاں دلواتے ہیں‘‘۔
’’شرم نہیں آتی!‘‘ حرمہ نے آستین پکڑ کر برآمدے میں کھینچ لیا۔
’’مگر مریم باجی‘‘۔
’’نہیں۔ میں نے بلایا تھا‘‘۔
’’کیوں؟‘‘
’’ذرا قمیص دیکھئے کیا روشنائی سے بیل بوٹے چھاپے ہیں‘‘۔
’’صبح ہی تو پہنی تھی۔ پن لیک کر نے لگا‘‘۔
’’اور کل اسے رشید بھائی جان پہن چکے تھے۔ اتنے لوگ جمع ہیں آپ کو اچھا لگتا ہے کہ لوگ مذاق اڑائیں کسی کا۔ رشید کی گودڑ الماری میں سے اس نے ایک قمیص نکال کر دی۔
’’جلد ی سے بدل کر آجائیے‘‘۔
’’جو حکم محترمہ کا‘‘۔ منصور بڑے اچھے موڈ میں تھا۔
اوپر اپنے کمرے میں مریم سسکیوں سے رو رہی تھی انیس ان کی انگلیاں چوم کر سمجھا رہے تھے۔ ’’ڈارلنگ بے بی، دنیا داری تو نباہنا ہی پڑے گی ویسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تم میری ہو اور میری رہو گی‘‘۔
’’مجھے ڈر لگتا ہے انیس‘‘۔
’’اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے ہنی‘‘۔
’’اسے پتا چل گیا تو؟‘‘ اس نے گھٹی ہوئی آواز میں کہا۔
’’بڑا گائودی سا ہے، اسے کیا پتا چلے گا؟ دیکھا نہیں تم نے کس بری طرح گھوررہا تھا تمہیں؟‘‘
’’گدھا کہیں کا!‘‘ مریم غصے سے کانپ اٹھی۔
’’ارے نہیں، غریب گھر کا لڑکا ہے بے چارا، اس نے تم جیسی قتالہ عالم لڑکیاں کہاں دیکھی ہوں گی۔ تمہارے پیر دھو دھو کر پیئے گا‘‘۔
’’میں زہرکھالوں گی۔ مجھ سے برداشت نہ ہوگا‘‘۔
’’میری جان کیوں رائی کا پہاڑ بنائے دیتی ہو‘‘۔
’’میں رنڈی نہیں ہوں، آج اسکی کل دوسرے کی‘‘۔
’’ہائے سویٹ بے بی، حالات تم جانتی ہو، ورنہ ذرا سوچو میرے دل پر کیا گزررہی ہے ! مصلحت اسی میں ہے‘‘۔
’’توآپ طلاق کیوں نہیں لے لیتے! کیا فائدہ ڈھونگ رچانے سے؟‘‘ مریم جل گئی۔
’’کاش طلاق لے سکتا۔ ہماری سول میرج ہوئی تھی، دوسرے میرے اوپر اتنا قرض ہو گیا ہے کہ بیان نہیں کر سکتا۔ یہ قرضہ کسی طرح چک جائے پھر میں کوئی نوکری تلاش کروں گا پھر تم کھلے بندوں میری ہو جاؤ گی۔ دوسری صورت کے لیے بھی تم تیار نہیں ہوئیں۔ ڈاکٹر میرا دوست ہے مگر اب تو بہت دیر ہوگئی میری جان‘‘۔
’’آپ مجھ سے بور ہو چکے ہیں پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں‘‘۔ مریم رونے لگیں۔
’’یہ تمہارا وہم ہے بے بی‘‘۔
’’تو پھر وہ لڑکی جس کے ساتھ آپ گھومتے پھرتے ہیں!‘‘
’’اوہ تم تو حد کرتی ہو بھئی بزنس کے سلسلے میں‘‘۔
’’میں خوب جانتی ہوں آپ کی بزنس‘‘۔
’’دیکھو ڈارلنگ مجھے سمجھنے کی کوشش کرو۔ تم تو ہماری بیگم سے بھی چار ہاتھ آگے نکل گئیں۔ اس نے تو میرے اوپر کبھی پہرے نہیں بٹھائے‘‘۔
’’وہ خود جو ہرجائی ہیں، آپ کو کس منہ سے منع کر سکتی ہیں‘‘۔
’’میں بھی توتمہیں منع نہیں کرتا، جانی مجھ سے زیادہ براڈ مائنڈڈ انسان تمہیں کہیں نہیں ملے گا‘‘۔
’’ہاں، آپ میرے دولہا ڈھونڈ کر لائے ہیں‘‘۔
’’مگر بے بی ہنی کوئی فرق نہیں پائو گی تم۔ آئی ایم رئیلی میڈ ابائوٹ یو۔ اچھا اب من بھی جاؤ‘‘۔
انیس نے اتنا گدگدایا کہ وہ ہنس پڑی۔
آج الٹی گنگا بہہ رہی تھی۔ مئے ارغوانی اپنا رنگ دکھا رہی تھی۔ بجائے حرمہ کے آج منصور کی نظریں اس کا پیچھا کر رہی تھیں۔ ان نگاہوں میں اسے اپنی فتح کا عکس نظر آرہاتھا۔ آج اس نے نہایت چست قمیص اور تنگ موری شلوار پہنی تھی۔ فاختہ کے پروں جیسا شفان کا دوپٹہ نام چار کو کندھوں پر پڑا تھا۔ ساڑھے تین پانچ سینڈل پہن کر وہ منصور کے کان کی لوتک پہنچ رہی تھی۔ اس نے کئی بارانجان بن کر منصور سے اپنے کو ناپا۔ کس قدر موزوں جوڑی تھی۔
چیدر چچا منصور کے پاس بیٹھے بڑے زور شور سے کوئی بالکل بے تکی بحث کررہے تھے۔ جب ان پرچڑھنے لگتی تھی وہ ہر بات کی کاٹ کرنے لگتے تھے، حتیٰ کہ خود اپنی کاٹ شروع کردیتے تھے۔ کبھی ایک دم کمیونسٹوں کے خلاف محاذ بنا لیتے اور منصور یا رشید کو گھیرکر الجھنے لگتے، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ دنیا بھر کے کمیونسٹوں کی بے عنوانیوں کے یہی جواب دہ ہیں۔ اسوقت ان کے لہجے میں ہائیڈروجن بم گرجنے لگتے۔ کبھی ایک دم پلٹا کھا جاتے اورخود کمیونسٹوں سے بھی زبردست کمیونسٹ بن جاتے کیونکہ کسی زمانے میں وہ بال بال سرخ ہوتے بچے تھے۔
’’ارے ماں تم لوگوں سے بہتر کمیونزم تو ہمارے دفتر میں موجود ہے۔ پچھلے مہینے ہمارے چپراسی کی لڑکی کی شادی تھی۔ ہاتھ جوڑ کرکھڑا ہوگیا کہ سرکار صرف دو منٹ کے لیے آجائیے۔ میری لاج رہ جائے گی۔ بس جناب ہمار بیگم کا دل موم کا تو ہے ہی پگھل گیا۔ فوراً ساڑھی لے کر پہنچی۔ حالانکہ تحفے صرف برابر والوں کو دئیے جاتے ہیں۔ مگر میں نے کہا: کیا چپراسی انسان نہیں؟ اور پھر مسلمان بھی ہے۔ کیا نیچ لوگوں کے دل نہیں ہوتا؟ بیگم تم ضرور تحفہ دو، خیر صاحب گئیں بیگم اور دیاتحفہ‘‘۔
منصور اور رشید سمجھ گئے کہ ضرور یہ وہی ساڑھی ہوگی جس کے بارے میں مریم اور حرمہ کہہ رہی تھیں پرانے گوٹے والے نے دس روپے لگائے تھے۔ چچی بیگم یوں ٹھاٹ سے نئے ڈبے میں سجا کر لے گئیں کہ براتی دنگ رہ گئے۔
منصور ، چچا سے باتیں کرنے میں منہمک تھا مگر اس کے ہاتھ ان کے پچھے سے گزر کر ان کے دوسرے بازو پر بیٹھی ہوئی حرمہ کے ریشمی بالوں میں بھٹک رہا تھا۔
’’چاند خان چپراسی خوشی کے مارے پاگل ہوگیا۔ میرے پیر پکڑ لیے غریب نے، بتائیے صاحبزادے اسلام
میں کمیونزم میں کیا فرق ہے؟ اللہ پاک فرماتا ہے اپنے غلاموں کے ساتھ اچھاسلوک کرو‘‘۔ چچا ہانک رہے تھے۔
’’جی بجا فرماتے ہیں آپ‘‘۔منصور سوچے سمجھے جواب دے رہا تھا۔ اس کی روح اس وقت اس ہاتھ میں کھینچ آئی تھی جو حرمہ کے بالوں سے پھسل کرگردنپر لرز رہاتھا وہ دل ہی دل میںکہہ رہا تھا قبلہ میں قطعی آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار ہوں مگر خدارا ایسے گردن موڑئیے کہ حرمہ ڈر کر دور ہو جائے۔
’’اللہ پاک فرماتا ہے جو دنیا میں میرے نام پر ایک درم دے گا اسے عقبیٰ میں ستر ہزار درہم ملیں گے۔
’’سودا برا نہیں‘‘۔ منصور نے بڑی فرمانبرداری سے کہا ۔ حرمہ نے اس کی انگلی میں باریک سی چٹکی لی اور وہ اچھل پڑا۔ چچا چوکنے ہوگئے۔ حرمہ چھپ سے اٹھ کر بھاگی انہوں نے گردن موڑی تو منصور بھی غائب تھا، بے چارے حیران رہ گئے۔ انہیں شبہ بھی نہ تھا کہ یہ دونوں انہیں ٹٹی بنائے پیٹھ پیچھے چوہے پکڑ رہے تھے۔
کسی نے دونوں کو پائیںباغ کی طرف جاتے نہ دیکھا۔ سوائے فرخندہ بانوکے ، ان کی آنکھیں بھیگ گئیں او دل نے ٹھیس محسوس کی یا ایک جھلک چھمن میاں نے دیکھی جو دیر سے آنے کی معذرت کررہے تھے۔ اگر چھمن کبھی چوری چوری اس کی طرف دیکھتے بھی تو یوں جیسا چوہا بلی کو دیکھتاہے۔ حرمہ ان سے چڑی ہوئی بھی تھی مگر آج تووہ بڑے بانکے ترچھے لگ رہے تھے۔ جسم پر بوٹی بھی آگئی تھی۔ بال بھی برل کر یم لگا کر سنوارے گئے تھے۔ ضرور حلیمہ نے بنا سنوار کر سسرال بھیجا ہوگا!
سارے خاندان کو معلوم تھا کہ حلیمہ چھمن پر دو آتشہ بن کر چھا گئی ہے۔ چھمن کی دلہن کو بڑے تیر و تفنگ استعمال کرنے پڑیں گے۔ انہیں تو دنیا میں سوائے حلیمہ کے دوسرا نظر ہی نہیں آتا۔ کیا وحشت ہے! کیاسرور ہے! پانی کا سا لطف کہ روز پینے کے بعد بھی ہمیشہ کے لیے پیاس نہ بجھتی۔
چھمن نے آج بے باکی سے حرمہ کی طرف دیکھا تھا۔ ان کی نظروں میں منگیتر کی حیثیت سے کوئی پیغام نہ تھا۔ برادرانہ دلچسپی کا اظہار ضرور کیا۔ حرمہ نے مسکرا کر انہیں ہاتھ اٹھا کر سلام کیا اور باغ کی طرف بھاگ گئی۔
اس کا چہرہ تمتمارہا تھا، وہ سیدھی غسل خانے میں جا کرمنہ پر سرد پانی کے چھپکے مارنے لگی۔ جب دل کی دھڑکن ذرا قابو میں آئی بال ٹھیک کرنے کے لیے وہ مریم کے کمرے میں چلی گئی۔ بجلی جلائی تو دھک سے رہ گئی۔
مریم کی نازک پلنگڑی پر سفید جھاگ جیسی آب رواں کی ساڑھی موجیں ماررہی تھی جس کے اتار چڑھائو میں پتلون زدہ ٹانگیں غوطہ زن تھیں۔ وہ گرتی پڑتی الٹے پیروں بھاگی دو دو سیڑھیاں ایک ساتھ پھلانگتی وہ تیزی سے زینے پر سے اترنی لگی۔ آخری سیڑھی پر اس کا پیر دوپٹے میں الجھا اور وہ اوندھے منہ منصور کے پھیلے ہوئے بازوئوں میں گری۔
حرمہ کو بدحواس دیکھ کر منصور بھی پریشان ہو گیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے اسے سنبھال کر پوچھا۔ حرمہ ایک دم سسک کر رو پڑی اور اپنامنہ اس کے سینے میں چھپا لیا۔ اس قربت نے آگ پر تیل کا کام کر دیا مولسری کے تناور درخت کے نیچے دونو ں پگھل کر بہہ گئے۔
’’اف ! یہ لڑکیوں کی قمیض کہاں سے کھلتی ہے؟ ہزاروں بٹن لاکھوں ہک!‘‘
ڈرائنگ روم میں نوجوان لڑکے لڑکیاں میوزیکل چیئر کھیل رہے تھے۔ ان کے قہقہے اور تالیوں کی آواز دور کسی دنیا سے آرہی تھی۔ کائنات سنسان تھی۔ سوائے دو دلوں کی دھڑکن کے۔
منصور نے دھندلکے میں حرم کے نیم پیاسے ہونٹ اور چاہت سے سلگتی ہوئی آنکھیں دیکھیں۔ اسے کے کاغذ جیسے سفید گالوں پر موتی اب تک چمک رہے تھے۔ ابلی چاندنی جیسا کنوارا سینہ کنول کے پھولوں کی طرح کانپ رہا تھا۔ ٹھنڈی زمین پر دھکتی ہوئی حرمہ اور چار بڑے پیگ کا نشہ!
آنکھیں۔۔۔ معصوم بھوکی آنکھیں انجانی خواہشات سے چھلکتی آنکھیں حرمہ کی آنکھیں۔۔۔ منصور کی آنکھیں! اس کی محبوبہ کی آنکھیں! پیارے دوست کی آنکھیں۔
جیسے زور سے کسی نے اسے دھکیل دیا۔ وہ بچوں کی طرح سہم گیا اور کہنیوں میں منہ چھپا لیا۔ وہ شیرجو دوپل پہلے زور و شور سے گرج رہا تھا دبک کر غار میں واپس لوٹ گیا۔ ڈرتے ڈرتے حرمہ نے اس کا ہاتھ چھوا۔ اس کے گالوں پر لمبے لمبے آنسو بہہ رہے تھے۔ سینے میں سسکیاں ابل رہی تھی۔
دیرتک دونوں خاموش سرجھکائے بیٹھے رہے۔ جب سانسیں ٹھہر گئیں حواس واپس آئے تو منصور نے اس کے دونوں سرد ہاتھ اپنی جلتی ہوئی آنکھوں پر رکھ لیے۔
اس حرکت میں وحشیانہ خواہش تھی، نرم و نازک پیار تھا۔
جب دونوں شوروغوغا کی طرف واپس لوٹے تو ایسا معلوم ہوا ساتھ ساتھ کوئی خواب دیکھ کر آئے ہیں۔ عمداً ایک دوسرے سے دور دور، دو نازک بلبلو ں کی طرح الگ الگ کہ کہیں ٹکرا کر پھوٹ نہ جائیں۔ مریم سے آنکھ ملانے کی حرمہ کو ہمت نہیں ہورہی تھی۔ انیس سے اسے گھن آ رہی تھی۔ مگر اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ مریم فرید سے بڑے شرارت بھرے اندازے میں میٹھی میٹھی باتیں کررہی تھیں۔ انیس دونوں کی باگیں تھامے ہانک رہے تھے۔
چھمن معافی مانگ کر جا چکے تھے اور ان کی پیاری امی اور نایاب بوبو بڑبڑارہی تھیں:
’’اے میں قربان! کیوں فکر کرتی ہیں؟ چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات! الٹیاں لگیں کہ موئی صاحبزادے کے جی سے اتری‘‘ اور حرمہ سوچ رہی تھی کہ اگر اس گدھے نے حلیمہ کو چھوڑ دیا تو وہ اس کے منہ پر تھوک دے گی۔