جامن کا پیڑ ۔۔۔ سبین علی
Sabeen Ali is a short story writer, poet and critic from Lahore. Her writings, poems and articles have been published in renowned literary magazines. She has a great interest in fine and applied arts.
جامن کا پیڑ
(سبین علی)
خزاں کے پتے بھی پیغام رساں ہوتے ہیں جو گئے وقت کے قاصدوں کی مانند پیغام پہنچاتے اپنا سر قلم کروا لیتے ہیں۔ اس بستی کی ہواؤں نے کتنے ہی پتوں پر پیغام لکھ لکھ کر مجھے بھیجے تھے۔ کئی سر کٹے قاصد پیلا لباس پہنے میرے اردگرد پتنگوں کی مانند رقصاں ہیں۔ اور میں خشک ٹہنیوں کا الاؤ جلائے اس کے لکھے خطوط پڑھ رہا ہوں۔
جامن کے ٹہن کچے ہوتے ہیں پھر بھی انہیں پھلوں کے باغات کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔ مون سون ہواؤں کی وجہ سے جب تیز آندھیاں چلتی ہیں تو جامن کے بلند درخت ان ہواؤں کا زور توڑ کر آم کے کچے پھل ضائع ہونے سے بچاتے ہیں۔ کئی بار مجھے لگتا ہے کہ میں بھی کچے ٹہن والا جامن کا ایک پیڑ ہی ہوں۔
ابھی کچھ دیر میں میری بیوی آئے گی اور تڑخ کر پوچھے گی کہ مَیں اتنی سردی میں چھت پر کیا کر رہا ہوں۔ یہ بیویاں بھی عجیب ہوتی ہیں شکی وہمی یا شاید حقیقت کی وہ کھوج لگا لینے والی جو سات پردوں میں چھپا کر بھی رکھی گئی ہو تو ڈھونڈ نکالیں۔
آگ میں خشک لکڑیاں چٹخ چٹخ کر کوئلہ ہوتی جا رہی ہیں۔ میرے اندر اور باہر کی سلگتی آوازیں ہیولوں کی مانند دھوئیں کے مرغولوں کے ساتھ رقصاں ہیں۔
گوجرانوالہ سے کشمیر تک کا فاصلہ کچھ کم تو نہ تھا۔ مگر میرا اکثر وہاں جانا ہوتا۔ کبھی ادھار پر بھیجے سینیٹری ٹائلز اور فٹنگز کے پیسے وصول کرنے تو کبھی نئے گاہکوں کی تلاش میں جانا ہوتا۔ ابا کے گزرنے کے بعد بہت جلد مجھے اپنا خاندانی کاروبار سنبھالنا پڑا تھا۔ مجھے کشمیر کی سرسبز وادی چشمے آبشاریں اور دریائے نیلم اتنا ہی پر کشش لگتا جتنا کسی بھی میدانی علاقے سے آئے سیاح کو لگتا ہے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ آئے دن اس وادی کے سفر نے ان سب نظاروں کو میری روٹین کا حصہ بنا دیا تھا۔
رات گہری ہونے کے ساتھ خنکی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ درختوں کی شاخوں میں سے شونکتی ہوا موسم کو مزید اداس کر رہی ہے سبز زرد اور جل کر بھورے ہوتے کئی پتے کوئلوں کی آنچ میں چرمرا رہے ہیں۔ جب بھی دھوئیں میں خیالات کے ہیولے واضح ہونے لگتے ہیں سانسوں میں چیڑ کی مہک محسوس ہونے لگتی ہے۔
میرے قدم زمین نے جکڑ لیے تھے کچھ لمحوں کے لیے وقت زمین آسمان ساری کائنات اور میرا جسم تک منجمد ہو چکے تھے _______ تھے ؟ نہیں _____ بلکہ وہ لمحہ تو آج تک منجمد ہے۔ وقت نے اس لمحے کو حنوط کر کے میرے دل کے نہاں خانوں میں بسا ڈالا ہے۔ پہلی نظر کی محبت میرے لیے ایک جگت بازی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ اپنے یار بیلیوں کی محفل میں مَیں بارہا ایسی محبتوں کا مذاق اڑا چکا تھا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کبھی میں خود بھی پہلی نظر میں یوں ڈھیر ہو جاؤں گا۔ وہ اس دنیا کی سب سے حسین لڑکی تھی یا کہ ساحرہ، جس نے مجھے جکڑ بندی کا شکار کر لیا تھا۔ کچھ خوبصورتیاں بیان نہیں کی جا سکتی صرف محسوس کی جا سکتی ہیں۔ کوئی بھی تشبیہ کوئی استعارہ کسی بھی شاعر کے اشعار صنوبر کی تصویر کشی نہیں کر سکتے۔ جیسے شدید سردی کے موسم میں کئی دنوں بعد سورج نکلے، اس کی نرم دھوپ محسوس تو کی جا سکتی ہے لیکن بیان نہیں کی جا سکتی۔ کتنی ہی دیر میں گرد و پیش سے بے خبر کالج روڈ پر سینیٹری فٹنگز کی ایک دکان کے سامنے کھڑا اسے جا تے دیکھتا رہا۔ جب محویت ٹوٹی تو احساس ہوا کہ وہ سارا منظر نامہ محض خالی فریم رہ گیا تھا۔ سڑک کنارے لگے درخت، کالج سے نکلنے والے اسٹوڈنٹس کا ہجوم، راہگیر شاید سبھی اُسی سمت روانہ ہو چکے تھے۔ اور میں اس خالی فریم میں جکڑا بل کھاتی سڑک پر کھڑا پتلا کسی روح سے پھونک دیا گیا تھا۔
جلتی لکڑیوں کے چٹخنے سے اڑنے والا شرارہ میری ہتھیلی کی پشت پر آ لگا ہے۔ ہاتھ میں تھمے کاغذ میں ایک سوراخ بھی ہو چکا ہے۔ یہ آگ کتنی بے مہر ہے یہ کیوں نہیں جانتی کہ کیا کچھ جلا رہی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ میں بھی ابراہیم نہیں ہوں مگر پھر بھی۔
تب سردیوں کی آمد آمد تھی چناروں کے پتے چنگاریوں کی مانند سرخ ہو چکے تھے مگر صنوبر کے درخت یادوں کی طرح ہمیشہ ہریالے رہتے ہیں۔ اس شام مجھے واپس گوجرانوالہ آنا پڑا۔ مگر اگلے دن صبح صادق کے ساتھ ہی میں نے پھر جی ٹی روڈ سے ہوتے ہوئے کشمیر ہائی وے کا رخ کیا۔ راستوں کے مناظر، سڑکوں کے کنارے ایستادہ سنگ میل اور فاصلہ سب سمٹتے جا رہے تھے۔ دوپہر تک کالج کے سامنے میں گیان کی تلاش میں تپسیا کرتے کسی بدھ بھکشو کی مانند اس کا انتظار کرنے لگا۔ وجدان کی مانند نازل ہونے والی محبت یک طرفہ نہیں ہوتی۔ کسی نہ کسی سطح پر میری اور صنوبر کی روحیں کسی نامعلوم مقناطیسی دائرے میں داخل ہو چکی تھیں۔ جیسے ایک قطب نما زمین کی مقناطیسیت کو پہچانتا اور اپنا رخ قطب کی طرف متعین کر لیتا ہے۔ ایسے ہی میں کسی قطب نما کی مانند ہمیشہ کے لیے اس کے پیچھے ہولیا۔
صنوبر کا باپ میرا پرانا کسٹمر تھا۔ پچھلے دو سال سے وہ میری دوکان سے سینیٹری کا سامان کشمیر منگوا رہا تھا۔ یہ جان کر میں نے سکون سانس لی کہ اب صنوبر سے رابطہ اب اتنا مشکل نہیں رہے گا۔
چھت کی طرف آنے والی سیڑھیوں پر قدموں کی چاپ سنائی دے رہی ہے۔ یہ میری بیوی سمیرا ہے۔ میرے پاس اسے وضاحت دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ شاید میرے سارے لفظ کہیں خرچ ہو گئے ہیں۔ یا اپنی بے وقعتی سے خود بھی واقف ہیں۔ وہ آئی گی مجھے دیکھے گی اور شاید غصہ کرے گی یا بغیر کچھ کہے واپس چلی جائے گی۔ دھواں میری آنکھوں میں چھبن پیدا کر رہا ہے۔ سامنے موجود سارے منظر گڈ مڈ ہو چکے ہیں۔
صنوبر اپنے کالج کے لانگ ٹرپ پر اسلام آباد آئی تھی۔ فون پر رابطے کے بعد وہیں سے ہماری باقاعدہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ کئی مہینوں تک یہ سلسلہ کسی پارک اور کبھی کسی ریسٹورینٹ میں اس کے گھر والوں سے چھپ کر جاری رہا اور میرے گھر والوں کو تو یہی پتا تھا کہ کشمیر میں میرا کاروبار بہت پھیل رہا ہے۔ آئے دن فاصلے سمٹتے تین پہر کا سفر میرے لیے صرف ایک گام کی دوری پر ہوتا۔
محبت کے شجر پر سرخوشی اور چاہے جانے کا نشاط اکیلا نہیں کھلتا ساتھ خوف، وسوسوں اور اندیشوں کی زہریلی بوٹیاں بھی سر اٹھانے لگتی ہیں۔ صنوبر نے میری منتیں کیں کہ کورٹ میریج کے بعد اسے ساتھ گوجرانوالہ لے جاؤں کیونکہ اس کے والد کبھی اپنی ذات برادری سے باہر اس کا رشتہ طے نہیں کریں گے۔ ہو سکتا ہے اسے جان سے ہی مار ڈالیں۔ مگر نجانے کیوں میں ضرورت سے زیادہ اعتماد کا شکار رہا کہ ہماری شادی گھر والوں کی مرضی سے ہو جائے گی۔ میں سوچتا کہ آخر ایک مستحکم اور اچھے خاندان کے لڑکے کا رشتہ جسے ان کی بیٹی بھی پسند کرتی ہے محض ذات پات کی وجہ سے کیسے رد کر دیا جائے گا؟ میں اگر جامن کا پیڑ تھا تو صنوبر کا باپ چیڑ کا اونچا مضبوط اور سخت جان درخت۔ مجھے ہواؤں کو سینے پر روکنے کا مان تھا تو چیڑ کے درخت نے کبھی جھکنا نہیں سیکھا تھا۔
ایک اور خط میں آگ میں جھونک چکا ہوں، صنوبر کی تصویر سرخ کوئلوں پر دہک رہی ہے۔ جلتے ہوئے کاغذ میں سے بھی اس کی سبز آنکھیں مجھے تحیر اور بے یقینی سے دیکھ رہی ہیں۔ سمیرا کو جانے کیوں مجھ پر یقین نہیں آتا۔ یہ سارے خطوط صنوبر کی تصویریں میں نے گھر میں بنے ایک لاکر میں چھپا کر رکھی تھیں۔ پتا نہیں اس کو کس نے بتایا تھا۔ یا شک بیویوں کے خمیر میں رچا بسا ہوتا ہے کہ شادی کے کچھ ہی عرصے بعد صنوبر کی تصاویر اور خطوط سمیرا کے ہاتھ لگ چکے تھے۔ پہلی بار تو سمیرا بھی صنوبر کی تصویر دیکھ کر دم بخود رہ گئی پھر پرائی عورت سے جلن کا احساس ہماری زندگی میں زہر گھولنے لگا۔ ایک عورت دوسری عورت کا سایہ تک برداشت نہیں کرتی اور یہاں تو میں خود صنوبر کے وجود کی ایک پرچھائیں بن کر رہ گیا تھا۔
میری اور صنوبر کی محبت زیادہ دنوں چھپی نہ رہ سکی ایک دن اُسے کالج واپس چھوڑ رہا تھا کہ سامنے اس کا باپ راجہ پرویز خان کھڑا مل گیا۔ صنوبر کا گلابی رنگ پیلا پڑ گیا، وحشت زدہ آنکھوں میں خوف کی پرچھائیں لیے کانپتا وجود خزاں رسیدہ پتوں کی مانند لرزنے لگا۔ پرویز خان نے مجھے کھا جانے والی نظر سے دیکھتے ہوئے کہا کہ اگر دوبارہ اس شہر میں نظر آئے تو کاٹ ڈالے جاؤ گے۔ صنوبر کا وہ کالج میں آخری دن تھا اس کے چاروں طرف پہرے بٹھا دیے گئے تھے۔ فون مسلسل بند رابطے کی کوئی صورت نہ بچی تھی۔ چھپتے چھپاتے مظفر آباد پہنچا، صنوبر کی ایک سہیلی کی وساطت سے اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو علم ہوا کہ کالج چھڑوا دینے کے بعد صنوبر کی شادی بھی طے کر دی گئی ہے۔
کچھ دنوں بعد میرے تایا زاد بھائی کو پرویز خان کا پیغام آیا ــــ، تمہارا چچیرا بھائی اگر پیسوں کی اگرائی کرنے بھی یہاں آیا تو کاٹ ڈالا جائے گا۔ میرے ذمے اس کے تین چار لاکھ روپے ہیں جلد ہی سارا حساب تمہارے ہاتھ چکتا کر دوں گا۔ مگر وہ اپنی شکل لے کر کبھی یہاں نہ آئے۔
چیڑ کا پیڑ بہت اونچا سخت اور جاندار ہوتا ہے برفانی طوفان بھی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے وہ پہاڑوں کا پروردہ تھا، بھلا اسے میں کیسے زیر کرتا۔
معاملہ میرے گھر والوں تک پہنچا۔ یار بیلی مذاق اڑانے لگے کہ ہمیں کانوں کان خبر نہ ہونے دی اور معاملہ عشق میں اتنی اونچی اڑان پر چلا گیا۔ میرا وجود یخ بستہ ہواؤں کی زد پر تھا۔ کئی بار ایسا لگتا کہ ایک ایک کر کے میرے سارے ٹہن ٹوٹ جائیں گے۔ بے قراری سی بے قراری تھی۔ میری بے چینی دیکھ کر دوست کہتے یہ سب نارمل ہے ہر شخص عمر کے اس دور میں ان کیفیات سے گزرتا ہے۔ چھوڑو ٹینشن کوئی نئی لڑکی پھانسو بھول جاؤ گے اسے، لڑکی تو لائف میں آتی جاتی رہتی ہے۔ بلکہ بندہ اپنا ٹیسٹ بدلتا رہے تو اچھا ہے۔
کچھ مہینوں کی اداسی اور سٹریس کے بعد میں نے دھیان بٹانے یا شاید دوستوں کی نصیحت آزمانے کو بیک وقت دو تین لڑکیوں سے دوستی بھی کر لی۔ چلو یونہی سہی کچھ زندگی کا دستور تو بدلے۔
آگ بجھنے لگی ہے میں ایک خشک ٹہنی سے کوئلوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہا ہوں۔ کچھ مزید خشک پتے اور ٹہنیاں ان کوئلوں پر رکھ دیے ہیں۔ ابھی تو کئی ورق جلانا باقی ہیں۔
ٍٍٍٍ یار تو شادی کر لے یا کہیں ریلیشن بنا لے۔ یہ پیار محبت کچھ نہیں، صرف جسم کا تقاضا ہے پورا ہو جائے گا تو سب بھول جائے گا تجھے۔ ـ
روز میرا کزن یہی نصیحت کرتا۔ لیکن کئی بے تکلف دوستیوں کے بعد بھی بے قراری جوں کی توں رہی۔ میں نے کبھی صنوبر کو چھوا تک نہیں تھا۔ میں اس کے ساتھ شادی کے پلان بناتا بچوں کے نام تک سوچتا لیکن شادی سے قبل جسمانی تعلق کا خیال کبھی دل میں نہ آیا۔ شاید گھر کا ماحول، مذہب کا اثر یا پھر اسی کے سنگ زندگی گزارنے کا پکا تہیہ جو تھا۔ میری حسیات کتنی کمزور تھیں جو یہ اندازہ ہی نہ لگا سکیں کہ وصال سے قبل ہی دائمی ہجر کا روگ لگے گا۔
الجھن کے اس دور میں دوستوں کی نصیحتوں کے بعد کئی اور لڑکیوں کے قریب ہوا کہ اگر لمس سے محبت کی تڑپ ختم ہو جاتی ہے تو میں بھی اسے بھلا سکوں گا۔ لیکن کوئی دوسرا لمس اندر ہی اندر کاٹتے اس احساس کہ شکست نہ دے سکا اور یہ سب افیئیر ڈھکوسلے ہی رہے۔ نہ تڑپ ختم ہوئی نہ ہی ہجر کا روگ۔ ماں کو سب باتوں کی سن گن ملی تو اس نے میرے لیے لڑکی تلاش کرنا شروع کر دی۔
رات آدھی سے زیادہ بیت چکی ہے۔ کشمیر اور شمالی علاقوں کی طرف سے آنے والی یخ بستہ ہواؤں نے میرے جسم میں سنسناہٹ بھر دی ہے۔ میری آنکھیں دھواں دھواں ہو رہی ہیں۔ کوئلوں میں دہکتے خطوط، سمیرا کی شکایتی نظریں، صنوبر کا صبیح چہرہ سبز آنکھیں سب گڈ مڈ ہو رہے ہیں۔
کاش میں کمزور ٹہنوں والا جامن کا اونچا درخت نہ ہوتا۔ کاش میں آندھیاں اپنے سینے پر روکنے کا وصف رکھتا۔
مجھے خود سے بہت شکایات ہیں۔ میں نے صنوبر کی بات کیوں نہ مانی؟ میں پرویز خاں سے کیوں ڈر گیا؟ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی محبت کا اقرار کرنے کی بجائے، صنوبر کا ہاتھ مانگنے کی بجائے اپنی جان کے ڈر سے چھپ کر بیٹھ گیا۔
اگر میں نے یہی کم ہمتی دکھانا تھی تو کیوں صنوبر سے عہد و پیمان باندھے ؟کیوں اس کو اپنی محبت کا یقین دلایا اور اسے میں اس حد تک لے گیا جہاں اس نے واپسی کا کوئی راستہ چنا ہی نہیں تھا۔
میری شادی ہو گئی۔ سمیرا ویسی ہی بیوی ہے جیسی سب بیویاں ہوتی ہیں۔ دو بچے بھی ہو گئے۔ ان برسوں میں جسم کی بھوک پیاس سب مٹا چکا ہوں مگر روح کی تشنگی ہے کہ مٹتی ہی نہیں۔ دل کا جان لیوا درد ہے کہ مجھے کسی پل قرار نہیں۔ اپنی بیوی کی قربت میں ہوں یا دوستوں کی محفل میں، کہیں کوئی کانٹا مسلسل مجھے کچوکے لگاتا رہتا ہے احساس کی شدت ہے جو کاٹتی چلی جاتی ہے۔
کیا واقعی مرد اپنی محبت میں نا پختہ ہوتا ہے۔ اگر اِس کی محبت خام ہی ہوتی ہے تو پھر میں خود کو نزاع کے عالم میں کیوں پاتا ہوں۔
ساری ٹہنیاں جل چکی ہیں۔ اب فقط راکھ بچی ہے ساری تصویریں سارے خطوط راکھ کر چکا ہوں کہ کم از کم سمیرا کو تو راضی رکھ سکوں۔ لیکن ان میں لکھا ایک ایک لفظ میرے دل پر نقش ہے۔ اس کی صورت کی شبیہ میرے تصور میں بسی ہے وہ شبیہ کئی صورتیں بدلتی ہے جن سے فرار فقط خود فریبی ہے۔
کاش صنوبر اپنی شادی کی رات زہر کھا کر خود کشی نہ کرتی۔ وہ جیتی رہتی بے شک کسی اور کی ہم سفر بن کر جیتی۔ کسی موٹے سیٹھ یا گنجے سرکاری ملازم کے بچے پیدا کرتی۔ انہیں بڑا کرتی آنکھوں میں کچھ الگ خواب بساتی اور میرے دل میں جب کبھی اس کا خیال آتا تو میں اس کے تصور سے مسکرا دیتا۔ اس دنیا کے کسی کونے میں سہی کسی اور کے پہلو میں سہی لیکن وہ موجود تو ہوتی مگر اس نے میری محبت میں موت کو گلے لگا لیا۔ میری جدائی میں جینا گورا نہ کیا اور میں۔ ۔ ۔ ۔ میں ان پچھتاؤں کے ساتھ کیوں جی رہا ہوں۔
جامن کے سارے ٹہن ٹوٹ گئے تھے وہ اپنے سینے پر آندھیوں کو نہ روک پایا۔ دور بہت دور چیڑ کا فلک بوس، ہرا بھرا مغرور درخت جو برف کے طوفانوں میں جیتا تھا اپنی انا کی اونچائی میں حد سے گزرنے کے بعد اوپر سے جل کر سیاہ ہو چکا تھا۔
جامن اور چیڑ دونوں سینکڑوں میل کی مسافت پر گڑے ایک دوسرے سے نظریں چرائے آج بھی ایستادہ ہیں۔ ادھورے اور محروم شجر۔