طربیہ ۔۔۔ جمیل احمد عدیل
طربیہ
جمیل احمد عدیل
ذرے کی زرخیزی میں لپٹی
حاملہ ہونے کی
برابر چھلکتی رہتی ہے
اشارا ملتے ہی
تشنگی
نکاح کا تکلف کیے بغیر
فساد کے نطفے کو
نگل لیتی ہے
درد زہ سے پچھاڑیں کھاتی
ارض کی تقدیر
لیبر روم کی دہلیز ٹھہری
تسبیح و طواف کی ملکوتی ردائیں
کشش کے کعبے کی دیواریں ہیں
لیکن
وظیفے کے جبر سے وابستہ
وقفے کی فطرت
اپنے تقاضے کی زندانی ہوئی
فلک پر
فرشتوں کا گولف کھیلنا
ان کا خلقی حق ہے
مگر
اتفاق نے بھید کو سدا حجاب کیا
مقدس تفریح کے دوران میں
سن گن لینے کے قدیمی خوگر
ازلی مخبر
زمین پر
ایک اور سانحے کا جشن برپا کر دیتے ہیں ۔
Facebook Comments Box