اک طُرفہ تماشا ہے ۔۔۔ جاوید بسام
اک طرفہ تماشا ہے ۔
جاوید بسام ۔
دوپہر کا وقت تھا۔ گلی سنسان پڑی تھی ۔ وہ سر جھکائے آہستہ آہستہ چلا جا رہا تھا ۔ اس کی عمر ساٹھ سال رہی ہو گی ۔ سر پر کالی مخمل کی ٹوپی اور کمزور جسم پر ملگجا سا کرتا تھا ۔ جس کے رنگ کا پتا نہیں چلتا تھا ۔ نیچے پٹے والا دھاری دار پاجامہ تھا ۔ جو زمانے کے سرد گرم سہتے سہتے بد رنگ ہوگیا تھا ۔ پیروں میں کرمچ کے جوتے تھے ۔ جن کے تلے گھسے ہوئے تھے ۔ ان میں بار بار مٹی بھرجاتی تھی ۔ وہ رک کر انھیں جھاڑتا اور پہن کر چل دیتا ۔ اس کے ہاتھ میں ایک پرانی اٹیچی اور لکڑی کا فریم بھی تھا ۔ جس پر ہلکے رنگوں سے دربار کا منظر بنا ہوا تھا ۔
وہ پتلی باز تھا ۔ وہ اپنے خاندان میں اس ہنر کا اب آخری آدمی رہ گیا تھا ۔ وہ زمانے لد گئے تھے ۔ جب اس فن کے قدر دان موجود تھے ۔ اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا ۔ اس کی جیب نوٹوں سے اور منہ پان سے بھرا رہتا تھا ۔ مگر اب خال خال لوگ ہی پتلی تماشہ دیکھتے تھے ۔
جب بہت دنوں تک اس کے دروازے پر کسی نے دستک نہیں دی ۔ اسے کام ملنا بالکل بند ہو گیا تو اس نے فیصلہ کیا کہ اسے گلی گلی ، محلے محلے گھوم کر اپنے گاہک تلاش کرنے ہونگے ، ورنہ وہ بھوکوں مر جائے گا ۔ آخر اس نے اپنی اٹیچی سنبھالی۔ جس میں وہ کٹھ پتلیاں رکھتا تھا اور قصبے میں گھومنے لگا ، وہ گھومتے پھرتے بازار میں ایسی جگہ تلاش کر لیتا ، جہاں سکون سے تماشا دکھا سکے ۔ وہ پیٹی سے کٹھ پتلیاں نکالتا اور اپنی محفل سجا لیتا ۔ سب سے پہلے اس کے پاس کچھ بچے کھیلتے کودتے چلے آتے ۔ پھر ایک دو فالتو بازار کی رونق دیکھنے والے بھی آکھڑے ہوتے ۔ پھر جب وہ پارٹ دار آواز میں چوبدار بنتا اور بادشاہ سلامت کی آمد کا اعلان کرتا تو گزرنے والوں کے قدم دھیمے پڑ جاتے ۔ وہ رک کر ضرور دیکھتے کہ کیا ہو رہا ہے ۔ وہ ہر دفعہ نئی کہانی پیش کرتا ۔
اس کے پاس مختلف کٹھ پتلیاں تھیں ۔ حسین شہزادے اور شہزادیاں ، خوفناک چہرے والے بدمعاش اور محنتی مزدور ، ساتھ ہی معصوم پھول جیسے چہرے والے بچے۔ وہ رنگ برنگے اور زرق برق لباس میں ظاہر ہوتے ۔ پتلی باز دھاگوں کو اپنی لمبی اور پتلی انگلیوں میں پھنسائے جن کے ناخنوں میں میل بھرا ہوتا تھا جنبش دے کر ان کے چہروں کے تاثرات بدل دیتا ۔ کبھی حسین شہزادیوں کے مکھڑے مسکرانے لگتے تو کبھی ان دیکھے خوفوں اور اندیشوں سے لرز کر مرجھا جاتے۔ اس کی رعب دار آواز اس کے فن کو اب تک زندہ رکھے ہوئی تھی ۔ جب وہ شہنشاہ ہند کا پارٹ کرتا تو لوگ تخیل میں خود کو شاہی دربار میں محسوس کرتے ۔ وہ ملکہ عالیہ کی سریلی آواز نکالنے پر بھی قادر تھا ۔
آج کئی دنوں بعد وہ گھر سے نکلا تھا ۔ اس کی جیب بالکل خالی تھی۔ آخر وہ قصبے کے بڑے بازار میں پہنچ گیا ۔ وہاں لوگوں کی آمد رفت جاری تھی۔ وہ خریداری کر رہے تھے ۔ اس نے ایک بند دکان کے آگے چبوترے پر اپنی اٹیچی رکھی۔ پھر ٹوپی اتار کر جھاڑی اور دوبارہ سر پر جمالی، ماتھے پر آیا پسینہ پونچھا ۔ کچھ دیر ادھر ادھر دیکھتا رہا ۔ اسے بھوک محسوس ہورہی تھی ۔ صبح، اس نے آدھا کپ چائے کے ساتھ ایک رس کھایا تھا ۔
آخر اس نے بسم اللہ پڑھ کر اٹیچی کھولی ۔ چند لمحوں تک رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس کٹھ پتلیوں کو دیکھتا رہا ۔ پھر اس نے ملکہ عالیہ اور بادشاہ سلامت کو باہر نکالا ۔ بادشاہ کے سر پر تاج اور گلے میں موتیوں کا ہار تھا ۔ اس کی نظریں کچھ اور بھی تلاش کر رہی تھی ۔ آخر اسے گنجے سر والا، دھوتی کرتے میں ملبوس ایک پتلا مل گیا۔ وہ اسے مختلف رول میں استعمال کرتا تھا ۔ آج اسے شاہی باورچی بننا تھا ۔ اس نے پتلوں کے کپڑوں کی سلوٹوں کو درست کیا۔ ان کے کالے دھاگوں سے بنے بالوں کو سنوارا ۔ اب وہ بہت اچھے لگنے لگے تھے ، مگر یہ تو پتلی باز ہی جانتا تھا کہ بادشاہ سلامت کی اچکن پیچھے سے پھٹی ہوئی ہے اور ملکہ عالیہ کی ایک آنکھ نہیں ہے ۔
کچھ لوگ اس کے گرد جمع ہو گئے تھے ۔ وہ کچھ دیر کے لیے تفریح چاہتے تھے ۔ جلد ہی اس نے کھیل شروع کیا۔ وہ چبوترے پر بیٹھ گیا اور فریم اپنے آگے رکھ لیا۔ اب لوگوں کو اس کے صرف ہاتھ نظر آرہے تھے۔ منظر کچھ یوں تھا کہ بادشاہ سلامت اور ملکہ عالیہ شاہی دربار میں بیٹھے ہیں ۔ اچھے وقتوں میں اس نے یہ کھیل شاندار شاہی دربار کے ساتھ پیش کیا تھا مگر اب اسے معمولی فریم سے کام چلانا پڑ رہا تھا ۔ وہ کھنکھارا اور زور دار آواز لگائی ۔
” با ادب ۔۔۔۔۔۔۔ با ملاحظہ ہوشیار ۔۔۔۔۔۔ نگاہ روبرو بادشاہ سلامت تشریف لاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔”
اس نے انگلیوں کو حرکت دی اور منہ سے بینڈ کی آواز نکالی ۔ بادشاہ سلامت آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے دربار میں تشریف لائے ان کے پیچھے ملکہ عالیہ بھی تھیں۔ جب وہ شاہی مسند پر بیٹھ گئے۔ تو چوبدار نے آواز لگائی ۔ ” نیا شاہی باورچی حاضر ہو ۔ “
گنجے سر والا باورچی دھوتی سنھبالتا گھبرایا ہوا شاہی مسند کے آگے آکھڑا ہوا اور جھک کر آداب بجا لایا ۔ تماشا جاری تھا۔ سب دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ بادشاہ سلامت نے رعب دار آواز میں پوچھا۔ ” تم کیا کیا بنا لیتے ہو ؟ “
باورچی ہاتھ ملتے ہوئے بولا ۔ ” حضور ! شاہی قورمہ ، نورتن قورمہ ، مغلائی مرغ ، مرغ مسلم اور متنجن ہر چیز میں ماہر ہوں۔ “
” کیا تم فیرنی بھی بنا سکتے ہو ؟ ” ملکہ عالیہ نے پوچھا ۔
” جی ملکہ عالیہ یہ تو ناچیز کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ “
” تم پہلے کہاں کام کرتے تھے؟ ” بادشاہ نے پوچھا ۔
” حضور ! نواب تیمور مرزا کے ہاں ان کا پورا مطبخ میرے ہاتھ میں تھا ۔ نواب صاحب بڑا وسیع حلقہ رکھتے تھے، آئے دن دعوتیں ہوتی رہتیں ۔ سب میرے کھانوں کو پسند کرتے تھے ۔ “
” پھر وہاں سے کام کیوں چھوڑ دیا ؟ ” ملکہ عالیہ نے پوچھا ۔
” بس حضور کیا بتاؤں ۔ نوابوں کو تو آپ جانتے ہیں ، آرام طلبی اور عیاشیوں میں آہستہ آہستہ ساری دولت لٹا بیٹھے ، گھر قرق ہوگیا اور زمینیں برباد ۔ نہ کوٹھے رہے نہ چوبارے ۔ سب ناؤ نوش کے دوست ایک کر کے ساتھ چھوڑ گئے جب کمائی کا ذریعہ ہی نہیں رہا تو سب لچھن ختم ہوگئے ۔ ہماری تنخواہ دینا مشکل ہوا تو ایک دن ہمیں جواب دے دیا ۔ ” باورچی آہ بھر کر بولا ۔
” ٹھیک ہے ہم تمھیں آزمائشی ملازمت پر رکھ لیتے ہیں ۔ آج ہمارے لئے نورتن قورمہ ، مرغ مسلم اور شاہی ٹکڑے بنیں گے ۔ دوپہر کےکھانے میں ہم وہ تناول فرمائیں گے ۔ ” بادشاہ سلامت بولے ۔
گنجا باورچی تعظیم میں جھکا اور آداب بجا لایا ۔” حضور ! آپ فدوی کو ہر آزمائش میں پورا اترا پائیں گے ۔ ” وہ بولا اور الٹے قدموں دربار سے نکل گیا ۔
چوبدار نے دربار برخاست ہونے کی آواز لگائی ۔
بادشاہ سلامت اور ملکہ عالیہ بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور دھیرے دھیرے چلتے دربار سے رخصت ہو گئے ۔ تماش بینوں نے تالیاں بجائیں اور کچھ بچوں نے زوردار سیٹیاں ۔ پتلی باز نے اس داد کو خوش دلی سے قبول کیا۔ کچھ لمحوں کے لیے وہ اپنے دکھ درد بھول گیا۔ پھر کچھ لوگوں نے چند سکے فریم کے آگے پڑے کپڑے پر پھینکے۔ پتلی باز آگے چلا آیا۔ اب لوگ وہاں سے رخصت ہونے لگے تھے ۔ اس نے کٹھ پتلیاں اٹیچی میں رکھیں اور سکے اٹھائے ۔ وہ صرف دس آنے تھے ۔ اس کے چہرے پر مایوسی نظر آرہی تھی ۔ ان میں تو ایک وقت کا کھانا ملنا بھی مشکل تھا۔ خیر اس نے ٹوپی اتار کر جھاڑی ، اٹیچی دائیں ہاتھ میں اور فریم کو بائیں ہاتھ میں سنھبالے ، وہاں سے چل دیا ۔
اب اس کا رخ اسکول کی طرف تھا ۔ مگر وہ بھولا ہوا تھا کہ آج اسکول کی چھٹی ہے ۔ وہاں پہنچ کر اسے یاد آیا ۔ اس کے منہ سے گہری آہ نکلی ۔ اس کے پیٹ میں بھوک سے چوہے دوڑ رہے تھے ۔ آخر وہ چلتا ہوا پھر بازار کی طرف نکل آیا ۔ اس کے قدم چھپڑ ہوٹل کی طرف بڑھ گئے تھے۔ ان پیسوں سے وہاں سے کچھ مل سکتا تھا۔ ۔
چھپڑ ہوٹل میں بہت رش تھا ۔ اسے بہت مشکل سے جگہ ملی ۔ وہ کرسی پر پھیل کر بیٹھ گیا ۔ چھوکرا اس کے پاس چلا آیا ۔ کھانوں کے نام اس کے منہ سے گولیوں کی طرح نکل رہے تھے ۔ پتلی باز نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور اس کے کان میں سرگوشی کی ۔ ” میرے پاس صرف دس آنے ہیں جن میں مجھے چائے بھی پینی ہے ۔”
چھوکرے نے پیچھے ہٹ کر نخوت سے اسے دیکھا اور تیزی سے حساب جوڑ کر بولا ۔ ” بغیر تری کی چنے کی دال اور ایک روٹی ملے گی ساتھ ہی چائے کا ہاف کپ ۔ “
” روٹی ڈیڑھ نہیں ہو جائے گی ؟ ” اس نے لجاجت سے کہا۔
” ہرگز نہیں ، جلدی بولو لاؤں ؟ ” چھوکرے نے کہا
” لے آؤ ۔” پتلی باز نے مری ہوئی آواز میں کہا ۔
کچھ دیر بعد جلی ہوئی روٹی اور دال اس کے آگے رکھ دی گئی ۔ اس نے بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا ۔ وہ چھوٹے چھوٹے نوالے بناتا اور دیر تک اسے اپنے منہ میں چباتا رہتا ۔ جسے اپنے خالی پیٹ کو بہلا رہا ہو کہ کھانا بہت ہے ۔ پھر اسے کچھ خیال آیا اس نے اٹیچی تھوڑی سی کھولی۔ بادشاہ سلامت اور ملکہ عالیہ اوپر ہی پڑے تھے۔ اس کے چہرے پر گہری مسکراہٹ آگئی۔ اس نے نوالہ بنایا اور ان کی طرف لے جا کر بولا ۔ ” حضور ! کیا آپ میرے ساتھ کھانا تناول کرنا پسند کریں گے ؟ ۔۔۔۔۔ چنے کی دال اور جلی ہوئی روٹی ہے ۔۔۔۔۔ ارے نہیں میں بھی کتنا بے وقوف ہوں ۔ ” اس نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا۔
“آپ تو آج نورتن قورمہ ، مرغ مسلم اور شاہی ٹکڑے تناول کریں گے ۔ “
یہ کہکر اس نے اٹیچی جھٹکے سے بند کی اور کھانے میں جت گیا۔ کھانے کے بعد اس نے ہاف کپ چائے پی اور اٹیچی اٹھاکر باہر نکل گیا ۔