نظم ۔۔۔ جاوید جبار
نظمم
جاوید جبار
ہماری باتوں میں
حیرت کے ساتھ
غصے کا اظہار
خوف اور وقتی دکھ
بلوغت تک پہنچنے سے پہلے ہی
تڑپ کر مر جاتے ہیں
کسی مرے ہوۓ کے ساتھ
تھوڑی دیر کے لیے مر جاتے ہیں
اور کوئی جاتی بارات دیکھ کر
سہاگ رات کے مزے
ذہن میں پال کر بڑے کرتے ہیں
پانی نکلنے کے بعد
خود ہی اس میں پھسل جاتے ہیں
یہ ہمارا روز کا معمول ہے !
ہم چھوٹی باتوں پر بڑا بولتے ہیں
اور بڑی باتوں پر کان تک نہیں دیتے
شعور نام کی کسی شے سے کوئی سروکار ہی نہیں
ہم سیاست پر صرف اچھا بول لیتے ہیں
ہمارے پاس ہر تصّور مونث ہوتا ہے
جس کا ضد مذکر کے ہی صیغے میں آتا ہے!
Facebook Comments Box