غزل ۔۔۔ جاوید شاہین
غزل
( جاوید شاہین )
تشہیر کو کچھ شوق ِ خریدار بھی رکھ لے
چیزوں میں کوئی چیز چمکدار بھی رکھ لے
ہے تیز بہت بھاو خریداری ء گُل کا
بازار میں اب نرگس ِ بیمار بھی رکھ لے
آسان ہو قاتل کی کوئی ایک تو مشکل
رکھا ہے جہاں سر کو وہیں دار بھی رکھ لے
اس شور میں جینے کی یہی ایک ہے صورت
اب چار طرف جسم کے دیوار بھی رکھ لے
تھوڑی سی جگہ اور سفینے میں ہے خالی
دریا اگر رکھا ہے تو منجھدھار بھی رکھ لے
کیا جانیے کس رت میں کھلے چشم ِ تماشا
امید کا کیا ہے، اسے اس بار بھی رکھ لے
لوگوں کی ضرورت سی ہے، بِک جائے گی شاہیں
تھوڑی سی خموشی سر ِ بازار بھی رکھ لے
Facebook Comments Box