بھیگے خیالات ۔۔۔ جویریہ وریشہ وِش
بھیگتے خیالات
جویریہ وریشہ وِش
چاند آج مجھ سے نالاں ہے۔
بادلوں کی اڑ سے چپکے چپکے کہیں سے مجھے دیکھ رہا ہے ۔
شاید اسے بھی بارشوں سے ڈر لگتا ہے ۔
وہ لڑکی بھی کیا خوب فنکار ہے
بارش کے موسم سے اسے عشق ہے تو پھر
اس بزدل نے کھڑکیاں کیوں بند کرلی ہیں ؟
مٹی کی تشنگی بجھی تو نت نئے پھول کی آمد کے نشاں محوِ رقص ہیں
نرم و نازک کونپلیں سر اٹھائے مجھے وارفتگی سے تکے جا رہی ہیں ۔
بارش میں بھیگتی بلی کے بچے کو گود میں اٹھا لو
اس کی دعائیں رنگ لائیں گی تو
محبت سے خالی پیمانے بھر جائیں گے۔
چمکتی بجلیاں بھی کیا خوب ہیں
یہ گم گشتہ مسافروں کو پل بھر کو ہی سہی راہ تو دیکھاتی ہیں
اس بارش کو دیکھو
میرے تخیل کے گرد آلود آئینے کو دھو رہی ہے
دھلے دھلے اجلے خیالات نظم نگار کے قلم کو چھیڑ رہے ہیں
اور تیرا خیال میری بھیگی زلفوں کو چھیڑ رہا ہے
پیانو کی دھن پر جھومتی ، خوشی سے راگ الاپتی تیری یاد کی بھیگی چڑیا
اپنے گیلے پروں سے میرے آگے پیچھے پھڑپھڑا رہی ہے
تیرا لمس ٹھنڈی بارش سے نہائی ہوئی ہوا سے میرے موم سے بنے وجود کو پگھلا رہا ہے
یہ پکوڑوں کو بارش کی سوغات کہنے والو
اٹھاؤ پلیٹ اور باہر بیٹھے کسی فقیر کو دے آؤ
اسکے پاس بھی آخر دل ہے ۔
یہ بارش بھی کن خیالات میں دھکیل دیتی ہے
اور جھومتی گاتی چڑیا بارش کا ہر قطرہ تیرے خیال میں ڈوب کر میرا ہم خیال بنے رقص کنعاں ہے۔
کسی مصور کے پینٹ برش سے کینوس پر اتری رنگین تتلیاں
برسوں بعد برسنے والی اس بارش میں اڑ رہی ہیں
پھر تیری یاد کا موسم برس پڑا ہے ۔
کبھی تو برستے موسم کے صدقے
ایسا بھی ہوگا
میرے خواب و خیال سے نکل کسی برستی بارش میں میرے سامنے آ کھڑے ہوگے
اور تمہاری یاد کے برستے موسم سے ٹھنڈے پڑے
میرے گیلے ہاتھوں کو تھام لو گے……